ہر وہ شخص جس کی ماں یہودی ہو یا اس نے یہودی مذہب اختیار کر لیا ہو اور اس کے رسومات کو اپنی زندگی میں نافذ کر کے ان پر ایمان لے آیا ہو۔
ایسا اسم جو ذاتِ الہیہ پر دلالت کرتا ہے، جو کہ جملہ صفاتِ کمال و جلال اور جمال کی مالک ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کا سزاوار نہیں۔
جو اپنی مخلوقات کی حفاظت و صیانت کرتا ہے، اس کا علم اس کی ایجاد کردہ تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس نے انھیں لکھ رکھا ہے۔
كسی شے کا درجۂ کمال و تمام کو پہنچنا۔
اللہ تعالی کا مقرب فرشتوں کے سامنے نبیﷺ کی تعریف کرنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ ازواجِ مطہرات، جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دخول فرمایا۔
مخلوق کو اللہ تعالی کا ہمسر قرار دینا ان باتوں میں اللہ کی خصوصیات میں داخل ہیں۔
زمین کی وہ جگہ جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے۔
نمازی کا رکوع سے اٹھنے کے بعد سیدھا کھڑے ہونے پر ’’ربَّنا ولَكَ الحَمْدُ‘‘ کہنا۔
یہ ایک کافر جن کا نام ہے، جسے آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔
کسی مسلمان پر مرتد ہونے کا حکم لگانا۔
ایک ایسی مخلوق جو پوشیدہ رہتی ہے، عقل و فہم کی حامل ہے، شریعت کو ماننے کی مکلف ہے، شکل بدلنے کی طاقت رکھتی ہے اور اصلا آک سے پیدا کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کے ارادے سے دل کا کسی کام کے کرنے کا عزم کرنا۔
ہر وہ چیز جس پر انسان اس قدر مضبوط ایمان رکھے کہ اسے اپنے دل میں اچھے سے بسالے اور اسے اپنا مذہب بنالے۔
کسی آدمی کی حمایت اور اس کے بچاؤ میں قبیلہ، خاندان یا رنگ و نسل کی طرف داری کے طور پر کھڑا ہو جانا، معاملہ چاہے حق کا ہو یا باطل کا۔
اس بات کی پختہ تصدیق کرنا کہ اللہ عز و جل نے ہر امت کے اندر ایک ایک رسول بھیجا ہے، جو اسے صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا، اس کے علاوہ جتنے بھی معبودان باطلہ کی پرستش اس میں ہوا کرتی تھی، ان کا انکار کرنے کی دعوت دیتا، اللہ کی طرف سے ملنے والی جزا و صلہ کی خوش خبری سناتا اور اس کے عقاب و سزا سے ڈراتا تھا۔ علاوہ ازیں اس بات کی تصدیق بھی اس میں شامل ہے کہ دنیا میں جتنے بھی نبی و رسول آئے، وہ سب کے سب اللہ کے بھیجے ہوئے سچے رسول تھے۔
کفر اسلام کی ضد ہے۔ اس سے مراد کوئی ایسی بات کہنا، ایسا کام کرنا، عقیدہ رکھنا، شک کرنا یا کسی ایسی چیز کو چھوڑنا ہے، جو آدمی کو اسلام کے دائرے سے باہر کر دے۔
کسی انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت۔
نماز میں سر اور پیٹھ کو ایک مخصوص انداز میں جھکا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔
ایسے باحوصلہ، صبر و شکیب کے حامل، فضل والے، پختہ فہم و فراست کے مالک، ثابت قدم اور راہ استقاقت سے نہ ڈگنے والے پیغبران، جن کی طرف اللہ نے وحی فرمائی اور جنھیں اپنے دین کی تبلیغ کا حکم دیا۔ یہ قابل قدر ہستیاں ہیں: نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم الصلاۃ والسلام۔
اللہ تعالیٰ کے وجود کا پختہ عقیدہ رکھنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہی پروردگار، پیدا کرنے والا، مالک اور تدبیر کرنے والا ہے اور وہی تنہا عبادت کے لائق ہے۔ اس کے اچھے اچھے نام اور اعلیٰ صفات ہیں اور یہ کہ وہ ان تمام باتوں میں یگانہ ہے۔ اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے۔
قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ نے اجمالاً و تفصیلاً اپنی جن کتابوں کے بارے میں بتایا ہے، ان کی تصدیق و اقرار کرنا اور ہماری طرف بھیجی گئی کتاب یعنی قرآن مجید پر عمل کرنا۔
قرآن وسنت میں فرشتوں کی صفات، ان کے اعمال اور ان کے ناموں کے بارے میں اجمالاً اور تفصیلاً جو کچھ بتایا گیا ہے، اس کی تصدیق اور اقرار کرنا۔
موت کے بعد پیش آنے والی ہر اس چیز کی پختہ تصدیق کرنا، جس کے بارے میں اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اور نبی کریم ﷺ نے اپنی حدیث میں بتایا ہے۔
اس بات کی پختہ تصدیق کرنا کہ جو کچھ کائنات میں ہوتا ہے، سب اللہ کی تقدیر، اس کے علم، تحریر، ارادہ ومشیت اور تخلیق سے ہوتا ہے۔
موت اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے جانے کے درمیان لوگوں کے رکنے کی جگہ اور مدت۔
بروزِ قیامت، اللہ تعالیٰ کا مُردوں کو زندہ کرنا اور انھیں ان کی قبروں سے اٹھا کرحساب و جزا کے لیے میدانِ حشر کی طرف لے جانا۔
کمال اور جمال کے اوصاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا اور اسے تمام نقائص اور عیوب سے مبرّا ومنزہ قرار دینا۔
اللہ تعالی کے اوامر کو سرانجام دے کر اور اس کی منع کردہ اشیا سے پرہیز کرکے انسان کا اپنے اور اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کے مابین کوئی حفاظتی ڈھال اور آڑ بنا لینا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام خصوصیات جیسے ربوبیت، الوہیت، اسما و صفات میں یکتا ماننا اور شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار کرنا۔
اس بات کا پختہ اعتقاد اور مکمل اقرار کہ اللہ تعالی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور ہر کام کی تدبیر اور انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
تمام ظاہری و باطنی، قولی و عملی اور اعتقادی عبادات کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا اور اس کے سوا ہر کسی سے عبادت کی نفی کرنا۔
تورات وہ کتاب ہے، جسے اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام پر اتارا تھا، جو یہودیوں کے ہاتھوں تحریف کا شکار ہونے اور قرآن کے ذریعے منسوخ کیے جانے سے پہلے تک بنی اسرائیل کے لیے نور و ذریعۂ ہدایت تھی۔
بہت بڑے بدلے اور وافر ثواب کا گھر، جسے اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اپنے اولیا اور طاعت گزاروں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔
مؤمن کے ایمان میں ظاہر ہونے والی وہ قوت جو اچھے اعمال اور مختلف طرح کے نیک کام کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور اس کے ایمان میں در آنے والی وہ کمزوری جو گناہ اور حرام کاموں کے ارتکاب کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔
قول، عمل اور اعتقاد سے تعلق رکھنے والا دین کا وہ طریقہ اور روشن شاہ راہ، جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گام زن تھے۔
یہ کہنا: ”أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله“ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔
پہلے چار خلفاے اسلام جو اللہ کے رسول محمد ﷺ کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امیر مقرر ہوئے۔ ان سے مراد ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم ہیں۔
اللہ تعالی کی وہ کتاب ہے، جسے اس نے سیدنا عیسی علیہ السلام پر نازل کیا، جس میں ہدایت، نور، نصیحت و موعظت ہے اور جو تورات میں مذکور صداقتوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اس میں نصرانیوں نے سیدنا عیسی علیہ السلام کے آسمان پر اٹھا لیے جانے کے بعد تحریف و تبدیلی کر دی ہے اور اس کے احکام قرآن کریم کے ذریعے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
وہ جھاڑ پھونک، گرہیں اور منتر جن کے ذریعے جادوگر شیاطین کے استعمال تک رسائی حاصل کرتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے سحر زدہ شخص کے بدن، عقل اور اس کے ارادے وغیرہ کو ضرر پہنچا سکے۔
وہ اہلِ ایمان و تقوی، جو اپنے تمام میں اللہ کا دھیان رکھتے ہوئے اس کے عذاب اور ناراضگی کے خوف اور اس کی رضا و جنت کی چاہت میں، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس کی منع کردہ اشیا سے اجتناب کرتے ہیں۔
ہر وہ کام جس سے شریعت نے منع کیا ہو، وہ شرک تک لے جانے کا ذریعہ ہو اور اسے شرعی نصوص میں شرک کا نام دیا گیا ہو، تاہم وہ شرکِ اکبر کی حد تک نہ پہنچتا ہو۔
وہ شخص، جس نے رسول اللہﷺ سے ایمان کی حالت میں ملاقات کی اور اسلام پر ہی وفات پائی۔
جہنم کی پشت پر نصب کیا گیا ایک پل، تاکہ لوگ اپنے اعمال کے لحاظ سے اسے عبور کر کے جنت کی طرف چلے جائیں۔ نیک لوگ تو اس سے گزر جائیں گے، جب کہ فاجر لوگ اس پر سے لڑھک جائیں گے۔
ارادی یا غیر ارادی طور پر حق سے انحراف اور روگردانی کرنا۔
نہر کوثر سے نیچے اترنے والے پانی کا وہ ذخیرہ، جو قیامت کے دن محشر کی سرزمین میں اللہ کے رسول صلی ﷺ کے لیے تیار رہے گا، تاکہ آپ اپنی امت کو سیراب کر سکیں۔
انسان کا اللہ کے حکم کو بجا لانے کے ارادے سے وہ کام کرنا جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور اس کام سے رک جانا جس سے اسے روکا گیا ہے۔ خواہ امر و نہی کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے ہو یا پھر اعتقاد سے۔
عبادت ایک جامع لفظ ہے، جو اللہ تعالیٰ کے تمام محبوب و پسندیدہ، ظاہری و باطنی اقوال و افعال کو شامل ہے۔
شریعت نے جس حد تک جانے کی اجازت دی ہے، اس سے آگے بڑھنا۔ چاہے اس کا تعلق مقدار سے ہو یا وصف سے، اعتقاد سے ہو یا عمل سے۔
اسلام اور توحید
حفاظتِ دین کی خاطر بلادِ کفر و شرک سے بلادِ اسلام کی طرف منتقل ہونا۔
اللہ تعالیٰ کو ہر نقص سے پاک قرار دینا اور اس کے لیے ہر قسم کے کمال کو ثابت کرنا۔
دین میں کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا، جس پر چلنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مبالغہ آرائی ہو۔
خلافِ حق عمل کرنا خواہ اس عمل کا تعلق قول سے ہو یا فعل سے یا پھر اعتقاد سے۔
توحيد كو اپناتے ہوئے اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کردینا، اس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے تابع ہو جانا اور شرک اور اہل شرک سے بے زار ہونا۔
اعتقادی اور عملی طور پر نبیﷺ کی اتباع کرنے والے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے والے۔
ایسی پختہ تصدیق جو قبول کر لینے اور اطاعت کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ ایمان نام ہے زبان سے اقرار کرنے، دل میں عقیدہ رکھنے اور اعضا و جوارح سے عمل کرنے کا۔ یہ اطاعت و فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور نافرمانی و معصیت سے گھٹتا ہے۔
دین کے نام پر ایجاد کردہ ہر وہ نیا عقیدہ یا عبادت جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
ہر وہ شے جو اللہ کی ذات پر دلالت کرے اور اس کی طرف رہ نمائی کرے۔
کسی عمل کرنے والے کا اپنی عبادت سے اللہ کی رضامندی کے علاوہ کسی اور شے کا ارادہ کرنا۔ جیسے بندے کا اس مقصد سے عمل کرنا کہ لوگ اسے دیکھیں اور اس کی تعریف کریں۔
عقائد، احکام اور آداب پر مشتمل دین کا واضح راستہ۔
غیر اللہ سے ایسی محبت کرنا، جس سے غیر اللہ کا احترام، تعظیم، اس کے آگے جھکنا اور اس کی اطاعت کرنا لازم آتا ہو۔
بندہ کا احکامِ الہیٰ کو تبدیل کرنے، جیسے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے کے معاملے میں غیر اللہ کی اطاعت کرنا۔
اللہ تعالی کا وہ راستہ، جسے اس نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اپنے بندوں کے لیے متعین کیا اور اسے اپنے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب اور اپنی دی ہوئی خبر کی تصدیق کے ذریعہ، اپنے تک پہنچانے والا قرار دیا۔
اللہ کا کلام جو اس کے رسول محمد ﷺ پرنازل ہوا، جس کی تلاوت عبادت ہے، جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور جو ہم تک تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
ہر وہ گناہ، جس پر دنیا میں کوئی حد متعین ہو، اس کے بارے میں آخرت میں کوئی وعید سنائی گئی ہو، اس کے نتیجے میں آدمی لعنت یا غضب کا مستحق ہوتا ہو یا پھر اس کے ایمان کے ختم ہو جانے کی بات کہی گئی ہو۔
ہر وہ قول، فعل، تقریر، صفت یا سیرت جو اللہ کے رسول ﷺ سے منقول ہو، خواہ اس کا تعلق بعثت سے پہلے کی زندگی سے ہو یا بعد کی زندگی سے۔
قضا کا مطلب ہے فیصلہ۔ کہا جاتا ہے : "قَضَى في الأَمْرِ" یعنی اس نے اس مسئلے میں فیصلہ کیا۔ ویسے یہ لفظ پورا اور مکمل کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس کے دیگر معانی میں واجب کرنا، نافذ کرنا اور کسی کام کو مضبوطی سے کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔
فاسق : وہ شخص جو اطاعت و راست روی کے دائرے سے باہر نکل چکا ہو۔ کہا جاتا ہے : "فَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ" یعنی وہ اپنے رب کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہو گیا۔ ویسے 'فِسق' کے اصل معنی ہیں کسی چیز کا دوسری چیز سے اس طرح نکل جانا کہ اس میں فساد اور بگاڑ کا پہلو موجود ہو۔
اکراہ کے معنی ہيں کسی ایسے کام پر مجبور کرنا جو اسے پسند نہ ہو۔ کہا جاتا ہے : ”أَكْرَهْتُ فُلاناً، إِكْراهاً“ یعنی میں نے اسے ایسے کام پر مجبور کیا، جو اسے پسند نہيں تھا۔ یہ لفظ لازم قرار دینے کے لیے بھی آتا ہے۔ ویسے اصل میں یہ کلمہ ’الكُرْهِ‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بغض رکھنے کے ہیں۔ اسی طرح یہ انکار کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
عمل کا ضائع ہونا اور اس کا ثواب ختم ہوجانا۔
شفاعت کے معنی ہیں کسی دوسرے کے لیے کچھ مانگنا۔ یہ لفظ زیادتی، کسی سے مل جانے اور کسی کے ساتھ شریک ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
رِدَّت: لوٹنا اور پلٹ جانا۔ کہا جاتا ہے : ’’اِرْتَدَّ عَنْ سَفَرِهِ‘‘ یعنی وہ اپنے سفر سے واپس ہو گیا۔ اس کے کچھ دیگر معانی ہیں : واپس ہونا، انکار کرنا، رکنا اور منتقل ہونا۔
التَّفاؤُلُ : کسی اچھی بات سے خوش اور مسرور ہونا۔ اس کی ضد "التَّشاؤُمُ" یعنی فال بد لینا ہے۔
جحود : انکار۔ جحود اقرار کی ضد ہے۔ اس کے اصل معنی ہر چیز کی قلت کے ہیں۔
رقیہ: بچاؤ اور تحفظ۔ یہ حفاظت کی دعا کرنے اور محفوظ کرنے کے معنی میں بھی آتاہے۔ یہ لفظ در اصل "التَّرَقِّي" سے بنا ہے، جس کے معنی اوپر چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں۔
عِرافہ: عَرَّاف کا پیشہ۔ عراف سے مراد کاہن اور نجومی ہے، جو غیب اور مستقبل کا علم رکھنے کا دعویٰ کرتا ہے۔
آیت : علامت ونشانی۔ اسی سے قرآن کی آیت کو آیت کہا گیا، اس لیے کہ یہ پہلے والے کلام کے بعد آنے والے کلام سے الگ ہونے کی علامت ہے۔ اس کا اطلاق حروف کے مجموعے پر بھی ہوتا ہے۔ اس کے یہ معانی بھی آتے ہیں : معجزہ، دلیل، برہان، عجیب معاملہ اور عبرت۔
شعائر اسلام میں سے کسی پر کھلم کھلا عمل کرنا اور اس کی طرف (لوگوں کو) بلانا جبکہ اس پر عمل ناپید ہوگیا ہو۔
کاہن : وہ آدمی کو جو غیب اور مخفی باتیں جاننے کا دعوی کرے۔ اصل میں "الكَهانَة"، "التَّكَهُّن" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں : تہمت لگانا، اندازہ لگانا، گمان کرنا اور جھوٹ بولنا۔
یہ لفظ "الوَثَن" کی طرف نسبت سے وجود میں آیا ہے، جس کے معنی بت اور پوجے جانے والے پتھر کے ہیں۔ "الوَثَنِيَّةُ" کے معنی ہیں بتوں اور پتھروں کی پوجا۔ ’وَثَن‘ کے معنی مجسمہ اورصلیب کے بھی آتے ہیں۔ ’وَثَن‘ کا لفظ دراصل 'وَثْن' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں دوام اور ثبوت۔ ’وَثْن‘ کے معنی قوت اور کثرت کے بھی آتے ہیں۔
میزان : وہ آلہ جس سے اشیا کا وزن کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے: ”وَزَنْتُ الشّيءَ، أَزِنُهُ، وَزْناً“ یعنی میں نے ترازو کے ذریعہ سے اس شے کا اندازہ لگایا۔ ’وزن‘ کے معنی ہیں : کسی شے کا اُسی کی مثل دوسری شے کے ذریعہ بھار معلوم کرنا۔ مثلا دراہم کا بھار۔
یہ ایک اسم ہے، جو یا تو "النَّبَأ" سے ماخوذ ہے، جو خبر کے معنی میں ہے یا "النَّبْوَة" اور "النُّبُوءِ" سے ماخود ہے، جو اونچا اور بلند ہونے کے معنی میں ہے۔
قرین : ساتھ رہنے اور چپکے رہنے والا۔ یہ اصل میں "القَرْن" سے لیا گيا ہے، جو جمع کرنے کے معنی میں ہے۔
قَسَم : قسم۔ ایک قول کی رو سے یہ دراصل ”القَسَامَةُ“ سے ماخوذ ہے، جس سے مراد وہ قسمیں ہیں، جو مقتول کے اولیا پر تقسیم کی جاتی ہیں۔
آخرت اور خالق کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھنا۔ یہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے اور زمانہ کے ہمیشہ رہنے کے قائل ہونے کے لیے بھی آتا ہے۔ اس کے اصل معنی "الضِّيقُ" یعنی تنگی کے ہیں۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ "الزَّنْدَقَةُ" ایک فارسی اور معرب لفظ ہے۔
زندیق سے مراد وہ شخص ہے، جو آخرت اور خالق کی وحدانیت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ اسی طرح اس شخص کے معنی میں بھی آتا ہے جو کسی مذہب کو نہ مانتا ہو اور زمانے کے ہمیشہ رہنے کا قائل ہو۔ ساتھ ہی اس کا اطلاق منافق پر بھی ہوتا ہے۔
غوث طلب کرنا۔ غوث کے معنی بچانے اور مدد کرنے کے ہیں۔ اس کے اصل معنی ہیں : پریشانی کے وقت مدد کرنا۔ اس کے کچھ دوسرے معانی ہیں : نصرت طلب کرنا اور مدد مانگنا۔
کسی چیز کو ایک جانب جھکا دینا۔ اس کے معنی ہیں: کلام کو اس کے حقیقی اور صحیح معنی و مفہوم سے دوسرے معنی و مفہوم کی طرف پھیر دینا۔
حتمی اور قطعی بات۔ یہ تحقق اور شک و شبہ سے پرے علم کے لیے بھی آتا ہے۔ اس کی ضد "الشك" یعنی شک اور "الريب" یعنی شبہ ہے۔ اس کے اصل معنی سکون اور ظہور یا پھر ثبوت، استقرار اور دوام کے ہیں۔
تعطیل : فارغ کرنا، خالی کرنا اور کسی چیز کو بے کار چھوڑ دینا۔ یہ ’عَطَل‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خالی ہونے اور چھوڑنے کے ہیں۔ اور ’بئر معطلہ‘ سے مراد وہ کنواں ہے، جس پر لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہو۔ یعنی اس سے پانی لینے کے لیے آنا بند کردیا ہو ۔
تعویذہ (تعویذ) : ہر وہ چیز جس کی انسان پناہ لے۔ ’تعویذہ‘ اصل میں ’العوذ‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی بچانے، محفوظ رکھنے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ’’عَاذَ بِاللهِ‘‘ یعنی اس نے اللہ کی پناہ لی۔ ’تعویذ‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ برائیوں سے بچاتی اور محفوظ رکھتی ہے۔
تَکْیِیْفْ: یہ ’کَیْف‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں : ہیئت، ماہیت اور شکل۔ تکییف کے معنی ہیں : صفات کی کیفیت، ان کی شکل یا ہیئت، جیسے ان کی لمبائی، چوڑائی اور حجم وغیرہ بیان کرنا۔
’تمیمہ‘ اس سے مراد وہ دھاگہ یا منکے (دانے) ہیں، جنھیں عرب کے لوگ اپنے بچوں کے جسم میں لٹکایا کرتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اس کے ذریعہ سے مصیبت کو دور کرسکتے اور نظرِ بد سے محفوظ کر سکتے ہیں۔ تمیمہ اصل میں "تمام" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی کامل ہونے کے ہیں۔
تماثیل، تمثال کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں مجسمہ۔ کہا جاتا ہے : "مَثَّلَ لَهُ الشَّيءَ" یعنی اس کی ایسی تصویر بنائی کہ جیسے وہ تصویر اسے دیکھ رہی ہو۔ کسی بھی چیز کا سایہ اس کا تمثال (عکس) ہوتا ہے۔ یہ دراصل ”مَثَّلتُ الشَّيْءَ بِالشَّيْءِ“ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: میں نے فلاں چیز کا فلاں چیز سے اندازہ لگایا۔
تنجیم، "نَجَّمَ" فعل کا مصدر ہے، جس کے معنی ستاروں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے ہیں۔ جب کہ اس کا مادہ طلوع اور ظاہر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
التَّنْزِيهُ : بری کرنا اور پاک کرنا۔ جب کہ "التَّنَزُّهُ" کے معنی ہیں : دور ہونا اور نقائص سے اونچا ہونا۔ یہ اصل میں "النَّزْه" سے لیا گيا ہے، جس کے معنی دوری کے ہیں۔
بندے کو ہمہ وقت اس بات کا علم ہو کہ پروردگار اس کے تمام احوال سے باخبر اور مطلع ہے بایں طور کے وہ پروردگار کی گرفت سے خوفزدہ رہے۔
التَّنَطُّعُ (غلو اور تکلف سے کام لینا): کسی چیز کے بارے میں کھود کرید کرنا اور تکلف و بناوٹ سے کام لینا۔ کہا جاتاہے: ”تَنَطَّعَ في الكلامِ“ یعنی اس نے فصاحت ظاہر کرنے کے لیے خوب چرب زبانی سے کام لیا۔ یہ اصلا ’نِطَعَ‘ سے ماخوذ ہے، جو منہ کے اوپری غار یعنی تالو کو کہتے ہیں۔ لیکن بعد میں اس کا استعمال کہیں بھی تعمق سے کام لینے کے لیے ہونے لگا۔ بات چاہے قول کی ہو یا عمل کی۔
متواتر: پے در پے ہونا۔ کہا جاتا ہے : ”تَوَاتَرَتْ الإِبِلُ تَتَوَاتَرُ فَهِيَ مُتَواتِرَةٌ“ یعنی اونٹ یکے بعد دیگرے بغیر کسی انقطاع کے آئے۔ تواتر اصل میں 'وتر' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں فرد۔ ’تواتر‘ کی ضد ’انقطاع‘ ہے۔
خاکساری و فروتنی اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر، بے وقعت اور کم زور ظاہر کرنا۔ تواضع کی ضد تکبر اور اظہارِ برتری ہے۔ دراصل ’تواضع‘ کا لفظ 'وضْع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پستی اور انحطاط کے ہیں۔ اس کے دیگر معانی میں خشوع، سہولت اور نرمی وغیرہ داخل ہیں۔
جہنّم: یہ اس آگ کا نام ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آخرت میں عذاب دے گا۔ یہ عجمی لفظ ہے، جو عجمہ اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ بعض اہلِ لغت کا خیال ہے کہ یہ عربی لفظ ہے اور آخرت کی آگ کو ’جہنم‘ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی گہرائی بہت زیادہ ہے۔
الحِنْثُ : بہت بڑا گناہ۔ اس کے معنی قسم کے برخلاف کرنے اور قسم توڑنے کے بھی آتے ہيں۔ کہا جاتا ہے: ”حَنِثَ في يَمِينِهِ“ یعنی اس نے اپنی قسم توڑ دی، اس معاملے میں گناہ کا ارتکاب کیا اور اُسے پورا نہیں کیا۔ اس کی ضد ”البرّ“ یعنی قسم پوری کرنا ہے۔
خشیت: خوف و گھبراہٹ۔ ایک قول کی رو سے خشیت دراصل وہ خوف ہے، جس میں تعظیم کی آمیزش ہو۔ خشیت لفظ کے مفہوم سے حاصل ہونے والا خوف اکثر اس چیز سے واقفیت کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے، جس سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں ”الخَشي“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سوکھے پودے کے ہیں۔
چیخ و پکار اور اونچی آواز سے آواز دینا۔ کبھی کبھی اس سے مراد "الصياح" سے ہوا کرتی ہے، جو کسی چیز کی اس آواز کو کہتے ہیں، جو پوری قوت کے ساتھ نکلے۔ "الصيحة" کا اطلاق آواز پر بھی ہوتا ہے۔
عُروجْ: چڑھنا اوربلند ہونا۔ ’معراج‘ چڑھنے کا آلہ جیسے سیڑھی وغیرہ جس کے ذریعے انسان نیچے سے اوپر چڑھتا ہے۔
قَنْطرَہ: پل اور بلند عمارت یا وہ گزرگاہ جو پانی پر سے گزرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔
کرسی: تخت۔ اس سے مراد وہ چیز ہے، جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ عرب کسی بھی شے کی اصل کو ’کِرس‘ کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق ’عِلْم‘ پر بھی ہوتا ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے علما کو ’الکراسی‘ کہا جاتا ہے۔
گننا اور شمار کرنا
خالص کرنا، میل کچیل اور گندگى سے صاف کرنا، صاف ستھرا کرنا، تراش خراش کرنا اور چن لینا۔ بعد میں اس کا اطلاق نیکی کے کاموں میں توحید پر کاربند رہنے اور ریاکارى سے پرہیز کرنے پر ہونے لگا۔
غریب صحابہ کی ایک جماعت جو مسجدِ نبوی کے پچھلے حصہ میں ایک سایہ دار جگہ میں رہ رہے تھے۔
اوپر چڑھنے کا آلہ۔ جیسے سیڑھی، جس سے نیچے سے اوپر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اصلا یہ کلمہ اونچا ہونے اور چڑھنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے : "عرج إلى السطح وإلى السماء، يعرج، عروجا ومعرجا" یعنی وہ چھت پر چڑھا۔
يأس : مایوسی جو کہ 'رجاء' (امید) کی ضد ہے یا پھر کسی چیز سے امید ختم کر دینا۔
جِبرِيل: وہ فرشتہ جو انبیاے کرام علیہم الصلاۃ و السلام کی طرف وحی لانے کے کام پر مقرر ہے۔ جبریل لفظ کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں۔ کیوں کہ "الجبر" کے معنی بندے کے ہیں، جس کی نسبت "إل" یا "إيل" کی جانب کی گئی ہے، جو کہ نبطی زبان میں اللہ کا ایک نام ہے۔
اہلِ عرب اور دیگر لوگوں کی قرآنِ کریم کا مقابلہ کرنے سے بے بسی ظاہر کرکے دعوائے رسالت میں نبی ﷺ کی سچائی کو ظاہر کرنا۔
عُجمہ: واضح اور قابل فہم انداز میں بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کلمہ سکوت اور خاموشی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی سے ’اعجمی‘ کا لفظ نکلا ہے، جس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے، جو قابل فہم اور واضح انداز میں بات نہ کر پاتا ہو، گرچہ وہ عرب ہی کیوں ہو۔
’فِتَنْ‘ فتنہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں ابتلا، آزمائش اور امتحان۔ یہ ’فَتْنْ‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جلانے کے ہوتے ہیں۔
نبی ﷺ پر ایمان رکھنے والے آپ ﷺ کے قریبی رشتہ دار جن کے لیے صدقہ حرام ہے۔ یہ بنو ہاشم، بنو مطلب اور آپ ﷺ کی ازواج مطہرات ہیں۔
ہر وہ شخص جو قولی، عملی اور اعتقادی طور پر قرآن و سنت اور عملِ صحابہ پر مضبوطی سے قائم رہے، اور بدعات اور اہلِ بدعت سے کنارہ کشی اختیار کرے۔
اصنام، صنم کی جمع ہے۔ یعنی وہ چیز جسے لکڑی، چاندی یا پیتل سے تراش کر اس کی عبادت کی جائے۔ "الصَّنَمُ" اور "الصَّنَمَةُ" کا اطلاق اس مجسمہ پر بھی ہوتا ہے، جسے پوجا جاتا ہے۔ جب کہ اس کے اصل معنی خبیث چیز کے ہیں۔کہا جاتا ہے ’’صَنِمَتِ الرَّائِحَةُ تَصْنَمُ صَنَمًا‘‘ یعنی بو بگڑ گئی۔
طلسم: چھپی ہوئی چیز۔ ’طلمسہ‘ کا اطلاق کسی مبہم شے کو پڑھنے اور لکھنے پر ہوتا ہے۔ ’طلسم‘ ایک معرب یونانی لفظ ہے اور اس کا اطلاق ہر غیر واضح اور مبہم شے جیسے پہیلیوں اور معموں وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ایک قول کی رو سے یہ ’طلسمہ‘ سے ماخوذ ہے، جس کس معنی ہیں: کسی شی میں تبدیلی کرنا اور اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کرنا۔
مداہنت: جو بات دل میں ہو انسان کا اس کے برخلاف ظاہر کرنا۔ اس کا معنی ’کسی سے بنا کر رکھنا‘یعنی مصنوعی طور طریقہ بھی آتا ہے۔
معجزہ : خلافِ عادت بات۔ یہ ’عَجْز‘ سے مشتق ہے، جس كے معنى کمزوری کے ہیں۔ معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا سامنا کرنے سے مخالف بے بس رہے، جب اسے چیلنج کیا جائے۔ اس میں ’ھاء‘ مبالغہ کے لیے ہے۔
"المَعْصِيَةُ"اور "العِصْيانُ" : اطاعت کے دائرے سے نکل جانا اور فرماں برداری سے کنارہ کش ہوجانا۔ اس کی ضد اطاعت ہے۔
موبقات، موبقۃ کی جمع ہے۔ اس سے مراد ایسے گناہ ہیں، جو انسان کو ہلاکت اور خسارے میں ڈال دیں۔ موبقات یعنی ہلاک کرنے والی چیزیں۔
نہر کوثر سے آنے والے پانی کے اس ذخیرے کی پختہ تصدیق کرناجسے میدانِ حشر میں نبی ﷺ کے لیے بنایا گیا ہے تا کہ روزِ قیامت آپ ﷺ کی امت اس پر پانی پینے کے لیے آئے۔
النِّدُّ : مثل اور نظیر۔ ’نِد‘ اس چیز کو کہتے ہیں، جو كسى چیز کے مثل ہو اور اس کے امور میں اس کى مخالفت كرتا ہو، اور ’نِد‘ ہمیشہ مخالف ہی ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی ایک دوسرے سے جدا ہونے اور دور ہونے کے ہیں۔ اسی سے ضد، مخالف اور مثل کو ’نِد‘ کا نام دیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ اپنے مثیل کو دور کردیتا اور اس سے جُدا ہوجاتا ہے۔
قرآن اور حدیث میں مذکور بروزِ قیامت حقیقی میزان کے وجود کی پختہ تصدیق کرنا جس کے اعمال، دفترِ اعمال اور اشخاص کو وزن کرنے کے لیے دو پلڑے ہیں۔
ایک رقیہ جس سے مجنوں اور مریض کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہ "النشر" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں مریض کا صحیح ہونا۔
جہل، علم کی ضد ہے۔ اس کے کچھ دوسرے معانی ہیں : بے وقوفی اور بے حماقت کے ساتھ تصرف۔
صغائر، صغیرہ کی جمع ہے، جس کے معنی معمولی اور حقیر چیز کے ہیں۔ ویسے "الصِّغَر" کے اصل معنی کسی چیز کی قلت کے ہیں۔ صغائر کی ضد "الكَبائِرُ" اور "العَظَائِمُ" ہے۔ صغائر کے ایک معنی باریک چیزوں کے بھی ہیں۔
دوستی اور محبت۔ یہ لفظ اصل میں "الخَلَل" سے لیا گیا ہے، جو دو چیزوں کے درمیان کی خالی جگہ کو کہتے ہیں۔ جب کہ "التَّخَلُّلُ" کے معنی ہیں کسی چیز کا دوسری چیز کے بیچ میں داخل ہو جانا۔ محبت کو "خُلَّة" اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ دل کے اندر جگہ بنا لیتی ہے۔
رسول یعنی بھیجا گیا شخص۔ وہ شخص جو کوئی پیغام لے کر اسے پہنچانے کے ارادے سے آئے۔ کہا جاتا ہے : "أرسلت رسولا" یعنی میں نے ایک شخص کو ایک پیغام کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے پہنچا دے۔ یہ موافقت کرنے والے اور کسی کی طرف بھیجے گئے شخص کے معنی میں بھی آتے ہیں۔
حساب : گننا اور شمار کرنا۔ مناقشہ کے معنی میں بھی آتا ہے۔
ظلم : جور اور حد کو پار کرنا۔ اس کی ضد عدل ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں : کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹاکر کہیں اور رکھ دینا۔ اس کے ایک معنی تعدی کے بھی ہیں۔
کسی نفع کے حصول یا نقصان سے بچنے کے لیے دل کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ ہونا اوراس سے لو لگانا۔
اطاعت اور تقرب۔ ’عبودیت‘ کے حقیقی معنی ہیں : انکساری اور نرم خوئی۔ اس کے کچھ اور معانی ہیں : خضوع اور تابع دار ہونا۔
عرش: بادشاہ کا تخت، اسی سے کہا جاتا ہے: ”جَلَسَ المَلِكُ على عَرْشِهِ“ کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا۔ عرش کے معنی گھر کی چھت کے بھی آتے ہیں۔ جب کہ اس کے اصل معنی ہیں : بلند اور اونچا ہونا۔
فسق اور نافرمانی، جیسے جھوٹ اور زنا۔ اس اصل معنی کسی چیز کے تیزی سے ظاہر ہونے اور ایک چیز سے دوسری چیز کی طرف کھنچنے کے ہيں۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے اصل معنی ہٹنے کے ہیں، کیوں کہ فاسق حق کی راستے سے ہٹ جاتا ہے۔
بد شگونی۔ اصل میں "الطيرة"، "الطير" سے لیا گیا ہے، جو اڑنے والے جان داروں جیسے کوا وغیرہ کو کہتے ہیں۔
القَدَرُ : قضا اور فیصلہ۔ یہ "القَدْر" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں : کسی چیز کے پہنچنے کی جگہ اور انتہا۔ یہ تقدیر اور تدبیر کے معنی میں بھی آتا ہے۔
کسی چیز سے چھٹکارا حاصل کرنا، اس سے نکل جانا اور الگ ہو جانا۔ کہا جاتا ہے : "بَرِئَ مِن الشَّيءِ" یعنی اس نے فلاں چیز سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ اس کے اصل معنی کسی چیز سے دوری بنانے کے ہیں۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے اصل معنی کاٹنے کے ہیں۔
جحود : انکار۔ جحود اقرار کی ضد ہے۔ اس کے اصل معنی ہر چیز کی قلت کے ہیں۔
ثبات : سکون اور ٹھہراؤ۔ اس کے اصل معنی ہمیشہ رہنے اور ٹھہرنے کے ہیں اور اس کی ضد زوال اور انقطاع ہے۔ اس کا اطلاق استقامت اور ملازمت پر بھی ہوتا ہے۔
یمن طلب کرنا۔ یمن یعنی برکت اور خیر کی زیادتی۔ کسی کو میمون اس وقت کہا جاتا ہے، جب وہ مبارک ہو۔ تیمن کا اطلاق کسی کام کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ یمین بائیں کی بالمقابل جہت کو کہتے ہیں۔
التَّنْفِيرُ: ’کسی چیز سے ہٹانا اور دور کرنا۔ اس کے اصل معنی ہیں : کسی کو دور ہونے اور بھاگنے پر اکسانا۔ یہ بغض دلانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس کے ضد "التَّبْشِيرُ" یعنی خوش خبری دینا اور "التَّحْبِيبُ" اور پیارا بنانا ہے۔
رجا : امید۔ اس کی ضد مایوسی اور نا امیدی ہے۔ "الرَّجاءُ" کا لفظ کسی چیز کے لالچ کے معنی میں بھی آتا ہے۔
احباط: رائیگاں کرنا اور بگاڑنا۔ ’إحباط‘ کا لفظ دراصل "الحَبَط" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: جانور کا اس قدر چارہ کھا لینا کہ اس کے سبب اس کا پیٹ پھول جائے اور وہ مر جائے۔
احسان: ایسا کام کرنا، جو "حَسَنٌ" یعنی عمدہ ہو۔ "حَسَنٌ" کی ضد "القَبِيحُ" اور "السَّيِّئُ" یعنی قبیح اور برا آتی ہے۔ لفظ احسان کسی کام کو مضبوط اور عمدہ طریقے سے کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس کی ضد "الإساءَةُ" یعنی برا کرنا ہے۔
خوف: ڈر اور گھبراہٹ۔ اس کی ضد امن ہے۔ اس کے اصل معنی "النَّقْصُ" کم ہونے اور گھٹنے کے ہیں۔ اس کچھ دوسرے معانی ہیں: "الجُبْنُ" یعنی بزدلی، "الوَجَلُ" یعنی گھبراہٹ، "الرَّهْبَةُ" یعنی ڈر اور "الرُّعْبُ" یعنی رعب۔
حیاء: شرم۔ ’حیاء‘ کی ضد ’الوقاحة‘ (وقاحت و بے حیائی) اور ’الجرأة‘ (ڈھٹائی) ہیں۔ ’حیاء‘ کا لفظ دراصل ’حياة‘ سے ماخوذ ہے، جو کہ ’موت‘ کی ضد ہے۔
الغفران: درگزر کرنا اور معاف کرنا۔ ’غُفران‘ کے معنی گناہ سے چشم پوشی کرنے اور اس پر مواخذہ نہ کرنے کے بھی آتے ہیں۔ ’غُفران‘ کا لفظ دراصل ’غَفر‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: ڈھانکنا، چھپانا اور داخل کرنا۔
عصیان: اطاعت کے دائرے سے نکلنا۔ یہ لفظ مخالفت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس ضد "الطّاعَةُ" یعنی اطاعت کرنا اور "الإِجابَةُ" قبول کرنا ہے۔ اصل میں یہ "العَصْو" سے لیا گیا ہے، جو باندھنے اور جمع کرنے کے معنی میں ہے۔
الفُحْشُ: قبیح اور برا قول یا فعل۔ اس کے اصل معنی زیادہ کرنے اور حد پار کرنے کے ہيں۔
موافقت، ایک دوسرے کی مدد کرنا، باہمی تعاون اور محبت۔ اس کی ضد "المُعاداة" یعنی باہمی عداوت ہے۔ یہ متابعت کے معنی میں بھی آتا ہے۔
راہ راست پر چلنا، واضح ہونا اور نرمی کے ساتھ ایسی چیز کی جانب رہ نمائی کرنا جو مطلوب تک پہنچا دے۔ اس کی ضد "الضَّلالُ" یعنی گم راہی ہے۔
ترک کرنا، منہ موڑنا اور جدا ہونا۔ اصلا یہ کاٹنے اور توڑنے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کی ضد "الوَصْلُ" یعنی جوڑنا ہے۔
توسط : استقامت اور استوا۔ ویسے اس کے اصل معنی اعتدال کے ہیں۔ یہ لفظ افضل اور احسن چیز کے استعمال کے معنی میں بھی آتا ہے۔
کرامت : عزت و شرف۔ یہ "لكَرَم" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی سخاوت اور خیر کی کثرت کے ہیں۔ اس کی ضد بخل ہے۔ یہ لفظ شرافت و نجابت اور فضل کے معنی میں بھی آتا ہے۔
کاہن : وہ آدمی کو جو غیب اور مخفی باتیں جاننے کا دعوی کرے۔ اصل میں "الكَهانَة"، "التَّكَهُّن" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں : تہمت لگانا، اندازہ لگانا، گمان کرنا اور جھوٹ بولنا۔
اتباع: کسی دوسرے کے پیچھے چلنا۔ یہ اقتدا کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس کے اصل معنی پیدل چلنے والے کے نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے چلنے اور اس کے پیچھے چلنے کے ہیں۔ پھر بعد میں کسی کے کیے ہوئے کام کو کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
وہ فرشتے جو اللہ کی مشیّت اور قدرت سے دنیا و آخرت میں عرش کو تھامنے پر مامور ہیں۔
مؤخر و ملتوی کرنا۔ کہا جاتا ہے: ”أَرْجَأْتُ الأَمْرَ“ یعنی میں نے کام کو مؤخر اور ملتوی کر دیا۔
مباح سمجھنا اور کسی چیز کو حلال بنا لینا۔ یہ لفظ 'الحِلّ' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی مباح اور جائز ہونے کے ہيں۔ اس کی ضد 'الحُرْمَة" یعنی حرمت اور اور 'المَنْع' یعنی روکنا ہے۔ استحلال کسی چیز کو حلال کرنے کی طلب کے لیے بھی آتا ہے۔
الإسْراءُ: در اصل ”السرى“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: رات میں چلنا یا پھر رات کے عمومی حصے میں چلنا، بعض حصے میں نہیں۔ کہا جاتا ہے: "أَسرَى وسَرَى" یعنی وہ رات میں چلا۔
الاعْتِصامُ: کسی شے کو تھام لینا۔ یہ ”العِصمَة“ سے ماخوذ اور افتعال کے وزن پر ہے۔ یہ لفظ اصلا روکنے اور ساتھ لگے رہنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے: "اعْتَصَمَ باللهِ" یعنی اللہ کے فضل سے وہ گناہ سے باز رہا۔ ”العِصمة“ کے معنی حفاظت کے ہیں۔
کسی کی تعریف میں مبالغے سے کام لینا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یہ اصلا 'الطراوة' سے لیا گیا ہے، جو نرمی اور جدت کے معنی میں ہے۔ اسی سے مدح میں غلو کو 'إطراء' کہا جاتا ہے، کیوں کہ تعریف کرنے والا ممدوح کے نئے نئے اوصاف سامنے لاتا ہے۔
الحاد: کسی شے سے ہٹنا اور اس سے روگردانی کرنا۔ اسی سے "لَحْدُ القَبْرِ وإِلْحادُهُ" نکلا ہے، جس کے معنی ہیں: قبر کا شگاف درمیان کے بجائے ایک جانب میں کرنا۔ جب کہ "ألْحَدَ في دِينِ اللهِ" کے معنی ہیں: وہ اللہ کے دین سے ہٹ گیا اور اس سے روگردانی کی۔
انابت: توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ کہا جاتاہے: "أنابَ" یعنی وہ اطاعت کی طرف لوٹ آیا۔ جب کہ "نابَ إلى الله" کے معنی ہيں: اس نے توبہ کی۔
’الأُمَّة‘ جماعت۔ ایک قول کی رو سے اس سے مراد لوگوں کی ایک ایسی جماعت ہے، جس کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا ہو، چاہے وہ ایمان لائی ہو یا کفر کی راہ اپنائی ہو۔ ’أمت‘ کے لفظ کا اطلاق اس نابغۂ روزگار عالم پر بھی ہوتا ہے، جو اپنے علم میں یکتا ہو۔ اس کے کچھ دوسرے معانی شریعت اور دین وغیرہ کے ہیں۔
آخری زمانے میں اولادِ آدم ہی میں سے لوگوں کی ابتلا و آزمائش کے لیے ایک کانے اور جھوٹے آدمی کا ظاہر ہونا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ عجائبات اور غیر معمولی عادات ظاہر فرمائے گا۔
کسی چیز کا تین کی تعداد میں ہونا۔
تقیہ : ہوش و حواس سے کام لینا، بچنا اور برائی سے بچانا۔ 'الوِقايَةُ' کے معنی تکلیف سے محفوظ رکھنے اور بچانے کے ہیں۔
تضرع: تذلل اور خضوع۔ یہ 'الضَّرَع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور کم زوری کے ہیں۔
ثَوَابِتْ: یہ ثابت کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں: دائمی اور ٹھہرا ہوا۔ ’ثبُوت‘ کے اصل معنی کسی چیز کا ٹھہرنا اور قائم رہنا ہے۔ جب کہ ’ثوابِتْ‘ ہمیشہ قائم رہنے والی صحیح اشیا کو کہتے ہیں۔
الحشر: جمع کرنا۔ اسی سے ’محشر‘ ہے، جس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں اکھٹا ہوا جاتا ہے۔ حشر ہانکنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
الحَوارِيُّونَ: یہ 'حواری' کی جمع ہے، جس سے مراد کسی کا خاص اور چیدہ آدمی ہے۔ 'حواری' کا لفظ دراصل 'حَوَر' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہے: شدید سفیدی۔ ’حواریون‘ کے لفظ کا اطلاق عیسی علیہ السلام کے انصار کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص پر ہوتا ہے، جو کسی نبی کی بڑھ چڑھ کر نصرت کرتا ہے۔
الخِذلان: مدد اور اعانت چھوڑ دینا۔ کہا جاتا ہے: ”خَذَلَهُ صَدِيقُهُ“ یعنی اس کے دوست نے اس کی نصرت و اعانب چھوڑ دی اور اس کی مدد نہيں کی۔ "خِذْلاَن" کے اصل معنی ہیں: کسی شے کو چھوڑ دینا۔ یہ حوصلہ پست کرنے اور کم زور کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
حق: ثابت۔ اس کی ضد باطل ہے۔ اس کا اطلاق واجب اور لازم پر بھی ہوتا ہے اور اس کا استعمال تاکیدی اور متیقن چیز کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
الرَّهْبَةُ: خوف اور گھبراہٹ۔ "تَرَهَّبَ غيرَهُ" کے معنی ہيں : اس نے دوسرے کو دھمکی دی۔
یہ ’’سَلَفَ، يَسْلَفُ، سُلُوفاً‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں گزر جانا اور بیت جانا۔ 'سَلَفُ الرَّجُل' سے مراد آدمی کے گزرے ہوئے آبا و اجداد اور عمر و فضیلت میں فوقیت رکھنے والے رشتے دار ہیں۔
عیسیٰ کا اپنی روح و بدن کے ساتھ اللہ کے حکم سے دوسرے آسمان پر چڑھ جانا۔ یہ اللہ کی طرف سے عیسیٰ پر رحمت اور ان کی عزت افزائی تھی ۔
صِدِّیقیت: یہ 'صدّیق' کی طرف منسوت لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہمیشہ سچ بولنے والا، حد درجہ سچائی سے کام لینے والا، اسے لازم پکڑنے والا ہو اور اپنے عمل سے اپنے قول کو سچ کر دکھاتا ہو۔ 'صدق' کا لفظ 'کَذب' کی ضد ہے۔
وہ بات جسے لوگوں کا دل درست تسلیم کرے۔ یہ برحق فیصلہ کرنے کے لیے بھی آتا ہے اور اس کی ضد "الجور" یعنی ظلم ہے۔ اس کا اطلاق تمام معاملوں میں میانہ روی کے لیے بھی آتا ہے۔
عرّاف : یہ ’عارف‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد کاہن، ہاتھ دیکھنے والا اور نجومی ہے، جو غیب کی باتوں اور مستقبل میں ہونے والے امور کو جاننے کا دعوی کرتا ہو۔
القنوط: کسی شے سے مایوس ہونا۔ ’قُنُوط‘ کی ضد ’رجاء‘ اور ’طمع‘ ہیں۔ قنوط کے اصل معنی روکنے کے ہیں اور اسی سے مایوسی کو قنوط کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مایوس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی رحمت سے روک لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبیﷺ کی سنت پر اعتراض کرنا اور ان کی مخالفت کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ ان میں تناقض اور اختلاف پایا جاتا ہے۔
صنم اور پوجا جانے والا پتھر۔ اصل میں یہ لفظ "الوثن" سے لیا گیا ہے، جو دوام اور ثبوت کے معنی میں ہیں۔ یہ لفظ مجسمہ اور صلیب کے معنی میں بھی آتا ہے۔
وسیلہ وہ چیز ہے، جس کے ذریعے کسی دوسرے تک پہنچا جائے۔ لفظ وسیلہ کسی چیز تک پہنچنے کے سبب اور راستے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہ دراصل "التوصل" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی رغبت اور طلب کے ہیں۔
الولاية : قربت اور محبت۔ ولی قریب اور محب۔ اس ضد "البغض" یعنی نفرت اور "البعد" یعنی دوری ہے۔
دلیل : کسی چیز کا نشان۔ دلیل اسے کہتے ہیں جس سے استدلال کیا جائے۔ یہ لفظ دلالت کرنے والے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق دلیل کسی چیز کی طرف رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کے ہیں۔
سنت کے معنی ہیں طریقہ اور سیرت، چاہے اچھی ہو یا بری۔ اسی طرح طبیعت، جہت اور قصد و ارادہ۔
طیب کے لغوی معنى لذیذ، حلال اور جائز کے ہیں۔ لفظ "الطَيِّب" "الطِّيبَةِ" سے مشتق ہے، جس کے معنى ہیں خباثت سے سالم اور محفوظ ہونا۔ "الطَّيِّب" کى ضد "الخَبِيثُ" آتی ہے۔ لفظ طیب کا اطلاق نیک، اچھے، آسان، پاکیزہ اور صاف ستھرے وغیرہ پر بھى ہوتا ہے۔
ہروہ شے جو اللہ کو پسند ہو اور جس سے وہ راضی ہوتا ہواور وہ اللہ کے قرب کا باعث ہوچاہے اس کا تعلق نیتوں سے ہو یا پھر اعمال و اقوال سے ۔
انصاب "نَصْب" یا "نُصُب" کی جمع ہے۔ اس سے مراد بت، مورتیاں اور اللہ کے علاوہ پوجی جانے والی ساری چیزیں ہیں۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق اس سے مراد وہ پتھر ہیں جو کعبہ کے ارد گرد کھڑے کیے گئے تھے اور لوگ ان کی عبادت کرتے تھے اور ان کی قربت حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے۔ اسی طرح "النَّصبُ" اس اونچی اور سیدھی علامت کو بھی کہتے ہیں، جو کسی چیز کی حد یا آخری سرے پر رکھی جاتی ہے۔
قبر کے دونوں جانبوں کا میت کے جسم پر مِل جانا۔
یہودیوں کی مقدس کتاب جس میں توریت، انبیاء کی کتابیں اور مکتوبات شامل ہیں۔
قبر میں میت کے ساتھ جو کچھ پیش آتا ہے جیسے قبر کا بھینچنا اور دو فرشتوں کا میت سے اس کے رب، اس کے دین اور اس کے نبی کے بارے میں سوال کرنا۔
وہ صحابہ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری سنائی ہے، جیسے عشرہ مبشّرہ وغیرہ ۔
وہ دردناک عذاب جسے اللہ تعالی نافرمانوں کی روحوں اور جسموں پر ان کی وفات کے بعد مسلط کرتا ہے؛ یہ عذاب یا تو وقتی ہوتا ہے یا قیامت تک کے لیے دائمی۔
گناہوں کے ارتکاب اور حرام کام کرنے پر مومن کے ایمان میں حاصل ہونے والی کمزوری ۔
ایک ایسا عقیدہ جو اس بات پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی بعینہ مخلوقات کا وجود ہے۔
قیامت کا دن جس دن اللہ تعالی لوگوں کو حساب وکتاب اور جزاء وسزا کے لیے اٹھائے گا۔
واجباتِ دین میں ظاہر و باطن کا باہم مختلف ہونا بایں طور کہ نیکی کو ظاہر کرنا اور معصیت کو چھپانا۔
وہ لوگ جو دو رسولوں کے درمیان کے وقفے کے ہوں، بایں طور کہ پہلے رسول کو ان کی طرف نہ بھیجا گیا ہو اور دوسرے رسول کا انھوں نے زمانہ ہی نہ پایا ہو۔
لوگوں میں سنتوں سے آگاہی کو فروغ دے کر اور انہیں بدعات سے خبردار کر کے دینِ اسلام کے نقوش کے احیاء اور اسے اس حالت پر واپس لانے کی کوشش جس پر وہ اسلاف کے اولین دور میں تھا۔
اللہ تعالیٰ سے اچھائی کی توقع نیز اس کی رحمت، عفو ودرگزر کی امید رکھنا۔
حق کو تھامے رکھنا اور اس کی اتباع کرنا اور اہل حق سے جدا نہ ہونا اگرچہ وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں، نیز حکام سے قتال اور ان کے خلاف خروج (بغاوت) کو ترک کر دینا اگرچہ وہ ظلم کرنے والے ہوں۔
اصلِ ایمان جس کے بغیر اسلام درست ہی نہیں ہوتا۔
وہ شرک جو نیت و ارادے اور دل کے اعمال میں ہوتا ہے۔ (3)
وہ صفات جن کی اللہ تعالی نے اپنے آپ سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان پر نفی کی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے متعلق ہیں اور مشیت کے مطابق متجدد ہوتی رہتی ہیں۔
دینِ اسلام میں عیب نکالنا اور اس کے احکام کو تنقید کا نشانہ بنانا۔
دوسروں کے ساتھ نیکی کرکے، خندہ روئی کے ساتھ پیش آنا اور تکلیف پہنچانے سے باز رہ کر اچھا برتاؤ کرنا۔
غصے کی شدت میں نفس کو قابو میں رکھنا اور اسے انتقام لینے سے باز رکھنا۔
اللہ سے حصولِ ثواب کی غرض سے اس بچے کے امور کی دیکھ بھال کرنا جس کا باپ مرگیا ہو، اور اس کے دینی و دنیوی مصالح کے سلسلہ میں تگ ودو کرنا۔
جس پر کسی شے کا وجود موقوف (منحصر) ہوتا ہے، اور وہ (رکن) اس شے میں داخل ہوتا ہے، جیسے وہ امور جن پر صحتِ اعتقاد موقوف ہوتی ہے۔
شرعی نصوص کو ان کی اصل سے ہٹانا اور ان کے حقیقی ثابت شدہ معانی اور حقائق سے پھیر دینا یا پھر کائناتی دلائل کی اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا بایں طور کہ یہ کہا جائے کہ یہ اشیاء اللہ کے علاوہ کسی اور کی تخلیق ہیں یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ان کی تخلیق میں شریک ہے یا پھر وہ ان اشیاء کی تخلیق میں اللہ کا معاون ہے۔
کفار کی ان کے اقوال یا افعال یا عقائد یا اس کے علاوہ ان کے دیگر خصائص میں تقلید کرنا۔
ہر وہ شے جو امورِ عادیہ میں سے نہ ہو بایں طور کہ بشری طاقت سے بالاتر ہو اور انسانوں کے دائرہ قدرت میں نہ آتی ہو۔
وہ وسائل جو اللہ کے ساتھ شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بنتے ہیں۔
روزِ قیامت ہمارے نبی محمدﷺ کے ساتھ مخصوص تمام قسم کی شفاعتیں
بندے کا اللہ کی اجازت کے ساتھ ان لوگوں کی شفاعت کرنا جنھوں نے اس شفاعت کی شرائط کو پورا کردیا ہو اور شفاعت کو روکنے والی اشیاء سے پرہیز کیا ہو۔ (1)
ربوبیت کی خصوصیات جیسے تخلیق، رزق رسانی اور کارسازی وغیرہ میں غیر اللہ کو اللہ تعالی کا ہم سر بنانا یا اِن میں سے کسی شے کی غیر اللہ کی طرف نسبت کرنا۔
وہ صفات جو ازلی و ابدی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم و لازم ہیں، اور ان کا مشیت و اختیار سے کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ ساتھ دلیلِ شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
مخالفت و ہٹ دھرمی کے طور پر حق کو ٹھکرا دینا بایں طور کہ وہ نہ تو اسے جاننے کی کوشش کرے اور نہ ہی اس پر عمل کرے، چاہے وہ قول ہو یا عمل یا اعتقاد ہو۔
ہر وہ قول یا فعل یا عقیدہ جو (اس کے حامل) شخص کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔
وہ گناہ جنھیں شریعت نےکفر کا نام دیا ہے لیکن اس کے مرتکب کو دائرۂ اسلام سے خارج نھیں کیا ہے۔
وہ صفات اور عوارض جن کے مکلف شخص میں پائے جانے کی صورت میں اس پر کفر کا حکم نہ لگانا لازم آتا ہے۔
انسان کا اپنی زبان سے اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن، اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان کا اظہار کرنا اور اپنے دل میں وہ باتیں رکھنا جو ان سب کے یا ان میں سے کچھ کے مخالف ہوں۔
ہر وہ عقیدہ یا عبادت جو قرآن، سنت اور سلفِ صالحین کے اجماع کے خلاف ہو، جسے لوگ اپنی خواہشات اور رایوں کی بنیاد پر دین میں ایجاد کرتے ہیں۔
وہ امور جن کے ذریعے سے انسان کا امتحان ہوتا ہے تاکہ اس کے اچھے یا برے ہونے کا علم ہوسکے۔
اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی ایسی بات ڈالنا جو اس کے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کى وجہ بنے۔
دوسروں کے مطالبہ کے بغیر ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا کا خواست گار ہونا۔
پانسے كے تيروں اور اس طرح کی دوسری اشياء کے ذریعہ نصیب اور قسمت کا حال معلوم کرنا۔
عبادت میں غلو کرنا، ترکِ دنیا کرنا اور لوگوں سے کنارہ کش ہوجانا۔
ذوالحجہ کے مہینے کا نواں دن۔
کسی شخص سے برائی اور انتقام کے ارادے کے ساتھ نفرت رکھنا۔
لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے ایسے معنی کی طرف پھیر دینا جو اس سے مختلف ہو۔
اہلِ جنت کا جنت کی نعمتوں میں اور جہنمیوں میں سے کفار و منافقین کا دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنا۔
ستاروں کے طلوع و غروب ہونے کی طرف بارش کی نسبت کرنا یا ان سے پانی طلب کرنا۔
اللہ تعالیٰ کا لوگوں کو ان کے مرنے کے بعد ان کی قبروں میں سوال وجواب کے لیے زندہ کرنا اور قیامت کے دن انھیں حساب اور بدلہ کے لیے اٹھانا۔
وہ اعمال و اقوال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں۔
جس کا لفظ ایک اور معنی متعدد ہو اسے مشترک کہا جاتا ہے۔
اجماعِ علماء کو توڑ کر اور حق و صواب کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنا۔
قطعی حجت جو علم کا فائدہ دے اور وہ دلیل جس سے حق واضح ہوجائے۔
کسی شے کا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا۔
یہ ایک قسم کا جادو ہے جو شوہر کے دل میں بیوی یا بیوی کے دل میں شوہر کی محبت ڈالنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔
شرک اور اہل شرک سے محبت کرنا اور کفار کا مالی، جسمانی اور مشوروں کے ذریعہ تعاون کرنا اور مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرنا، ان کی تعریف کرنا اور ان کا دفاع کرنا۔
مسلسل تباہی وبربادی جو لاحق ہونے والے کو رنج والم میں مبتلا کردیتی ہے۔
جنت میں مومنوں کی بیویاں جو حسن و جمال سے متصف ہوں گی اور ان کی آنکھوں کی شدید سفیدی میں گہری سیاہی ہوگی۔
اطمینانِ قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے اس کے شرعی اور تکوینی امر میں سرِتسلیم خم کردینا اور عاجزی و فروتنی کا اظہار کرنا۔
مشورہ دینے کی صلاحیت رکھنے والے افراد جو حکمران وغیرہ کو مشورہ دیتے ہیں اور اسے نصیحت کرتے ہیں جیسے علماء اور بڑے لوگ وغیرہ۔
کسی دوسرے کی اقتداء اور اتباع کرنا بایں طور کہ اسی کی طرح کا عمل کرے اور جیسے اور جس انداز میں وہ کسی کام کو چھوڑے ویسے ہی یہ بھی چھوڑ دے۔
جنت اور جہنم پر متعین فرشتے۔
وہ نیک بندہ جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ کہف میں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بیان کیا ہے۔
پسندیدہ تین صدیوں کے بعد آنے والا ہر وہ شخص جس نے اہل بدعت اور خواہشات کے لوگوں کا راستہ اختیار کیا۔
جنتیوں کا جنت کی نعمتوں میں اور جہنمیوں کا جہنم کے دائمی عذاب میں رہنا جو کبھی منقطع نہ ہوگا ۔
انسان کا اپنے عمل سے اللہ کی رضا جوئی کے بجائے کوئی اور ارادہ رکھنا بایں طور کہ اپنے اعمال سے اس کی نیت دنیا کا حصول، ریاکاری یا اس طرح کی کوئی اور شے ہو چاہے یہ ارادہ کلی ہو یا جزوی۔(1)
ایک جامع اسم جس کے ضمن میں ہر قسم کے نیک اعمال اور اطاعت گزاری آجاتی ہے چاہے وہ عقائد کی شکل میں ہوں یا اعمال و اقوال کی۔
ہر وہ زمین جس میں کفر کے احکام (قوانین) کا غلبہ ہو، اور اس میں مسلمانوں کی حکمرانی اور ان کا زور نہ چلتا ہو۔
وہ دارالکفر جہاں کے باشندوں اور مسلمانوں کے مابین کسی عوض یا بلا عوض مسلمانوں کی کسی مصلحت کے پیشِ نظر معاہدۂ صلح طے پاگیا ہو۔
مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جانا اور حق کی مخالفت کرنا۔
جہنم کی آگ میں عذاب کے طبقات میں سے ایک طبقہ۔
دشمن سے لڑنے کے لئے کسی اور سے اعانت اور مدد مانگنا ۔ (2)
صفات: يعنی اللہ تعالی کی وہ صفاتِ کمال وجمال اور صفاتِ جلال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور وہ ذاتِ الہی کو دیگر ذوات سے ممتاز کرتی ہیں۔
جسموں کےاندر ثابت وقائم وہ خصوصیات اور قوتیں جو ان میں حلول کئے ہوتی ہیں۔
تفکر اور تدبّر سے کسی چیز کی حقیقت کا تصوّر اور اس کا ادراک کرنا۔
وہ چیز جس سے بحکمِ تعالیٰ قیامت تک کی ہر شے کی تقدیر لکھی گئی ہے۔
وہ صحابہ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر نازل ہونے والے قرآن کی کتابت اور تدوین کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔
آسمان میں موجود تاروں میں سے ہر تارے کا نام ۔
روزِ قیامت کے اسماء میں سے ایک اسم جو اسی طرح آئے گی اور اسی طرح ہوگی جیسے اللہ تعالی نے خبر دی ہے ۔
وہ خلافِ عادت امر ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی نبی کے ہاتھ پر اس کی بعثت سے پہلے ظاہر کرتا ہے۔
اللہ تعالی کے احکام کی بجاآوری کرکے اور اس کے منع کردہ امور سے اجتناب کرکے اس کی رضا مندی کے حصول اور اس سے ضروریات کی تکمیل کے لیے اس سے قریب ہونا۔
کسی دوسرے سے شدید ضرورت کے وقت میں مدد طلب کرنا۔
عیسائیوں کے ہاں ایک لقب جس کا اطلاق 'قسیس' سے اوپر اور 'مطران' سے نچلے درجے کے عالمِ دین پر ہوتا ہے۔
وہ جھنڈا جسے روزِ قیامت خاص طور پر صرف نبیﷺ اٹھائے ہوئے ہوں گے، تاکہ یہ آپ کی نشانی ہو اور اس سے آپ کا پتہ چل سکے۔ تمام لوگ یعنی آدم علیہ السلام اور ان کے علاوہ دیگر لوگ آپ کے تابع اور آپ کے جھنڈے تلے ہوں گے۔
مخلوق میں سے وہ شخص جسے بعض لوگوں نے اللہ تعالی کا اس کی الوہیت، ربوبیت اور اسما وصفات میں مماثل اور مساوی قرار دیا ہو۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے نازل کردہ شریعت جو اس کی اطاعت اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔
تفکر اور تدبّر کے ذریعہ کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا۔
حجاب کے ما وراء غیبی معانی اور حقیقی امور پر وجودی یا شھودی طور پر مطلع ہونا۔
وہ دلائل اور براہین جن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد و تائید فرماتا ہے جو اُن کی صداقت کی نشانی ہوتے ہیں۔
ہر وہ ملک جہاں اسلامی احکام کا غلبہ ہو اگرچہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت کافر ہو ۔
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
یہ یافث بن نوح علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں سے دو بڑے قبیلے ہیں، جو قیامت کے قریب عیسی علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں نکلیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کر دے گا۔
ہر وہ شے جو از راہِ شریعت ثابت ہے جیسے جنت و جہنم اور روزِ قیامت کے احوال۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے اور ان کے اثبات میں عقلی دلیل اور فطرت سلیمہ مشترک ہیں۔
انسان کے دل کو ڈھانپ دینا یہاں تک کہ وہ اپنے فائدہ کی چیز کو کرنے اور اپنے نقصان کی چیز کو چھوڑنے سے غافل ہو جائے۔
’سحر‘ کی ایک قسم جس کے بارے میں لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بیوی کو شوہر کا اورشوہر کو بیوی کا محبوب بنا دیتی ہے۔
نفس کی کمزوری اور دل کا خوف جو انسان کو بوقتِ ابتلا و آزمائش غم میں ڈال دے۔
خوف اور کمزوری جس کی وجہ سے انسان ڈرنے لگتا ہے اور اقدام کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
دوسروں کے لیے حصولِ منفعت یا دفعِ ضرر کی خاطر واسطہ بننا۔
کسی شے کو مضبوط کرنا اور اس میں فساد اور خلل واقع ہونے کو روکنا۔
کسی کام میں میانہ روی اختیار کرنا اور اس میں نرمی کے ساتھ اس طرح داخل ہونا کہ اس پر مداومت کرنا ممکن ہو۔
انسان کا اپنے دل اور زبان سے انکار کرنا چنانچہ وہ نہ تو حق کا عقیدہ رکھے اور نہ اس کا اقرار کرے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اشیاء اللہ کے علم کے بغیر اچانک وقوع پذیر ہوجاتی ہیں یا پھر اللہ کے علم کے برخلاف واقع ہوجاتی ہیں۔ (2)
اللہ بڑا، پاک اور بلند وبرتر ہے۔
اللہ کو جسم کے ساتھ متصف کرنا (یعنی اللہ کو مجسم بنانا)۔
فاعل کو اس کی رضامندی اور مشیت کے بغیر کام کرنے پر مجبور کرنا۔ یا اس سے مراد حقیقی طور پر بندے سے فعل کی نفی کرکے اسے رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔
اللہ کی صفاتِ جمال اور اچھے افعال کا ذکر کرکے اس کی قابل تعریف خوبیوں کو بار بار بیان کرنا اور انہیں شمار کرنا۔
ہر وہ رائے یا معنیٰ جو دل میں آئے۔
گناہوں کی وہ تاریکی جو دل پر چھا جاتی ہے اور اس میں سرایت کرجاتی ہے یہاں تک کہ اسے حق کو دیکھنے اور اس کی پیروی کرنے سے روک دیتی ہے۔
مسلمان کا دین کے متفق علیہ اصول میں سے کسی چیز پر ایمان لانے میں متردد ہونا، اور دین میں بدیہی طور پر معلوم اور ثابت شدہ کسی حکم یا خبر کی بالجزم تصدیق نہ کرنا۔
غیرُ اللہ سے مانگنا کہ جس کے دینے پر صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی قدرت رکھتا ہے جیسے مصائب کا ازالہ یا فوائد کا حصول، اسے دعا میں شرک کرنا کہتے ہیں۔
وہ صفات جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اپنی کتاب میں، یا اپنے رسولﷺ کی زبانی ان کی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔
ایسی نسبت جس کو اس کے غیر کو سمجھنے ہی سے سمجھنا ممکن ہے۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ دلیل شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
شہوت آمیز حد سے زیادہ محبت۔
اچھا گمان کرنا اور اچھی امید رکھنا۔
امام کا لوگوں سے چھپ جانا اور مستقبل میں اس کا دوبارہ ظاہر ہونا۔
بطورِ علاج جلد کو ایک گرم آلے سے جلانا۔
جان بوجھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرنا اور ان سے عداوت رکھنا اور اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کرنا۔
نص یا اجماع کے ذریعے ثابت شدہ دین کے کسی بھی قطعی اصول میں اہلِ السنۃ والجماعۃ کے خلاف جانا خواہ یہ اصولِ عقائد سے تعلق رکھتے ہوں یا عمل یا امت کی بڑی مصلحتوں سے متعلق ہو جیسے مسلمانوں کے امیر اور اس کی کابینہ کے خلاف تلوار کے ساتھ بغاوت کرنا۔
ایسا شخص جو اپنے ارادے سے مبرا ہو، اپنے شیخ سے محبت کرتا ہو، اس کے آگے سرِ تسلیم خم کرتا ہو، اللہ تعالیٰ سے خاص لگاؤ رکھتا ہو اور پورے طور پر اس کی طرف متوجہ ہو۔
ایسا مرکب لفظ جو قابلِ فہم معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ گیا ہو اس پر توبہ پیش کرنا (یعنی اسے توبہ کرنے کو کہنا)۔
بولنے والے کی اجازت کے بغیر اس کی گفتگو کو چوری چھپے سننا۔
کسی شے کو چننے یا پسند کرنے کے ارادے سے اس کی طرف بنظر غائر دیکھنا۔
ایسے تیر جن کے ذریعے زمانۂ جاہلیت میں عرب قسمت کا حال معلوم كيا كرتے تھے تاكہ بھلا بُرا جان سکیں۔
إلّا اور اس کے اخوات کے ذریعے لفظ عام کے حکم سے اس کے کسی مدلول کو خارج کرنا۔
منہ میں گوشت کا سُرخ رنگ کا عضو جو بولنے، چکھنے اور نگلنے کا آلہ ہے۔
اوصاف میں سے کسی وصف کا معتدل ہونا بایں طور کہ اس کے دونوں اطراف برابر ہوں۔
دو یا دو سے زائد چیزیں کسی ایک صفت، جگہ، نوعیت یا ان جیسے دیگر امور میں متفق ہو جائیں۔
پہلی میت کے ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کی وفات واقع ہو جانے کے سبب اس کے حصے کا اس کے وارثین کی طرف منتقل ہوجانا۔
روئے زمین پر موجود سبھی مخلوق کو انام کہتے ہیں۔
وہ گناہ اور معصیت کے کام جن میں انسان واقع ہوتا ہے، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے۔
بلا پر و پیکان کے تیر۔
روزِ قیامت موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے حقیقی طور پر ذبح کردیا جائے گا۔
کسی چیز کو بغیر کسی نمونے یا مثال کے (عدم سے) وجود میں لانا۔
وہ لوگ جنہیں علم وعمل میں انبیاء کی نیابت کا شرف حاصل ہوتا ہے ۔
مستقبل میں ایسی ہمیشگی جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔
دھتکارا اور ذلیل کیا ہوا، بھلائی سے دور کیا ہوا۔
افعال و احکام سے مقصود غایات اور حکمتیں۔
زمین کے کنارے اور اس میں جو کچھ حوادث (نئی چیزیں) اور مخلوقات ہیں، نیز آسمان کے کنارے اور ان میں موجود انوکھی چیزیں اور نشانیاں۔ ’اُفق اعلی‘ اہلِ تصوف کے خاص اصطلاحات میں سے ہے، انہوں نے اس کا ایک فاسد معنی ایجاد کر رکھا ہے، اور وہ : روح کی انتہا کو پہنچنا اور الٰہ (معبود) کے مظہر اور اس کی صفات میں ظاہر ہونا ہے۔ جب مخلوق اس درجہ تک پہنچ جائے تو وہ تمام مخلوق پر فائق ہوجاتی ہے اور اس کے اندر مُردے کو زندہ کرنے وغیرہ جیسی الٰہی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ صوفیا ’افق اعلی‘ اور ’افق مبین‘ کے مابین فرق کرتے ہیں، چنانچہ ان کے ہاں ’افق مبین‘ سےمراد مقامِ قلب کی انتہا ہے۔ جب کہ اہلِ سنت افق اعلی اور افق مبین کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے، یہ دونوں طلوع شمس کے کنارے کے نام ہیں، اور یہ دونوں جبریل علیہ السلام کے نبی ﷺ سے (اپنی حقیقی شکل و صورت میں) ملاقات کے موقع و محل کے دو وصف ہیں اور وہ دونوں بلندی اور وضوح سے عبارت ہیں۔ افق اعلی: مشرق کی سمت میں زمین سے بعید ترین جگہ ہے۔ اس کا افق مبین بھی نام ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں جبریل علیہ السلام اس وقت نمودار ہوئے تھے جب نبی ﷺ نے ان کو دیکھا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں ان کی اس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جس پر اللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے، تو انہوں نے اپنے آپ کو دو بار دکھایا؛ ایک بار زمین پر جب آپ ﷺ غارِ حرا میں تھے، تو جبریل علیہ السلام مشرق سے نمودار ہوئے اور انہوں نے مشرق سے مغرب تک کی وسعت کو گھیر لیا، اور دوسری بار آسمان میں سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ ’افق اعلی‘ کی اصطلاح کا ذکر عقیدہ میں توحیدِ اسماء وصفات کے باب میں رؤیتِ باری تعالی کے مسئلہ میں بات کرتے وقت آتا ہے۔
غائب ہونے والا اور اوٹ میں چھپ جانے والا۔
سرکش اور بُرا جِنْ جس میں مکاری اور خباثت ہو۔
وہ وقت جس کا کوئی محدد اختتام ہو۔
وہ بیڑیاں جن سے ہاتھ اور پاؤں کو مضبوطی کے ساتھ باندھا جاتا ہے ۔
جو کسی شے کو وجود دیتی ہے یا جو کسی دوسری شے کے حصول کا سبب بنتی ہے۔
بغیر سابقہ نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنا اور بنانا۔
وہ تمام موجودات جوعلم میں آسکتی ہوں اور جن کے بارے میں خبر دی جا سکے۔ (2)
بلا استدلال اور غور و فکر کے نفس میں ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی معرفت۔
جو کچھ بھی نھیں ہے اور خارج میں اس کی کوئی حقیقت اور وجود نھیں ہے۔
جس شخص سے قدرت اور ارادہ کے ساتھ فعل کا صادر ہونا درست ہو۔
اللہ تعالی کا نبی ﷺ کی طرف جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام کے واسطے سے وحی کردہ کلام۔
فاعل سے کسی فعل کے نتیجے میں دوسرا فعل صادر ہونا، جیسے ہاتھ کی حرکت سے چابی کا حرکت کرنا ۔
طویل زمانہ، جس کی مدت اسِّی سال یا اس سے زیادہ مقرر کی گئی ہے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بعض مخلوقات کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا ہے، لیکن بعض کے ساتھ نہیں.
عادت اور زیادہ تر لوگوں کے ہاں مانوس طریقے سے نکلنا۔
وہ خالی جگہ جس میں کوئی شے نہ ہو۔
تن اور بدن۔
شیطان کی صفت جو اس وقت پیچھے ہٹ جاتا اور دور چلا جاتا ہے جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے اوردل میں شبہات اور شہوات ڈالنے سے باز رہتا ہے ۔
کسی شے کا وجود خود اپنے وجود پر موقوف ہونا خواہ کسی واسطہ سے ہو یا بغیر واسطہ کے ہو۔
زور دار چیخ جو اپنی شدت اور قوت کی وجہ سے گویا کانوں کو بہرا ہی کردے گی ۔
مکرم فرشتے جنہیں اللہ نے بندوں کے اچھے برے اعمال کو محفوظ کرنے اور انہیں شمار کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے ۔
ایسے الفاظ جن میں صحیح اور غلط دونوں معانی کا احتمال ہو؛ بایں طور کہ تفصیل اور توضیح طلب کرنے کے بعد ہی ان کے معانی کا ادراک ہوسکے۔
حرفِ تمنا جو پہلے فعل کے امتناع کی وجہ سے دوسرے فعل کے امتناع پر دلالت کرتا ہے۔
ہر وہ شے جس کا عقلی طور پر خارج میں وجود متصور نہ ہو۔
وہ غیر موجود جو کچھ نہ ہو اور اس کا خارج میں کوئی وجود نہ ہو ۔
وہ فرشتے جو انسان کے آگے پیچھے سے باری باری اس کی نگہبانی کرتے ہیں؛ لیکن جب اس کی تقدیر کافیصلہ آن پہنچتا ہے، تو وہ اُس سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔
جس کا خارج میں وجود ممکن نہ ہو، مگر دماغ اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔
وہ شے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہو اور بذاتِ خود اس کا کوئی وجود نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی اور کی وجہ سے ہو ۔
فرائض کو ترک کرکے یا حرام کاموں کا ارتکاب کرکے اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکل جانا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ دین جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔
دل اور اعضاء وجوارح کا حق کو تسلیم کرنے، پسند کرنے اور مان لینے سے باز رہنا۔
زمین پر لکیریں کھینچ کر یا کنکریاں پھینک کر، یا اسی طرح کی چیزوں کے ذریعہ غیب کی خبر دینا۔
ہر وہ چیز جو انسان کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ ایسی شے عموماً بہت زیادہ اور مسلسل آنے والی ہوتی ہے بایں طور کہ ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسے غرق کر دینے والا سیلاب اور بڑے پیمانے پر واقع ہونے والی اموات۔
حقائق کو چھپانے اور دھوکہ دینے کے مقصد سے نقل و عقل سے ثابت شدہ حقائق کی ان کا علم ہونے کے باوجود نفی کرنا۔
ایسا معنی جو متکلم سبحانہ وتعالیٰ کی نفس کے ساتھ قائم ہو، جس میں کوئی حرف اور آواز نہ ہو، نیز اس کا تعلق اس کی مشیت وقدرت سے بھی نہ ہو۔
اللہ کے دشمنوں سے قول اور فعل کے ذریعہ دشمنی کا اظہار کرنا، اور ان سے براءت ظاہر کرنا نیز ظاہری اور باطنی طور پر ان سے دوری اختیار کرنا۔
ہر مذہب کے مختلف فرقے (یا مختلف افکار ونظریات) جنھیں لوگوں نے بغیر کسی نقلی دلیل کے ایجاد کر لیا ہو اور ان پر متفق ہوگئے ہوں۔
لفظ کی تفسیر اس کے پورے معنیٰ کے ساتھ کرنا۔
ایسی دو چیزیں جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ جمع نہ ہوسکیں، تاہم ممکن ہے کہ وہ دونوں ہی نہ پائی جائیں، جیسے سیاہی اور سفیدی۔
ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہو اور وہ صرف اسی جگہ پائی جائے جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔
عبادت میں شدت برتنا اور اوامر و نواہی میں حد سے تجاوز کرنا ۔
لفظ کو کسی تعلق کی بنا پر اس کے معنی موضوع لہ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنا بشرطیکہ اس کے ساتھ قرینہ بھی ہو۔
جس کا معنی ایک اور لفظ مختلف ہو۔
ما ھو (وہ کیا ہے)؟ كے جواب ميں کہی جانے والی بات جو نفس میں اس شے کا تصور پیدا کردے۔
جو چیز بھی انسان اپنی مرضی سے نفع کے حصول یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اسے کسْب کہا جاتا ہے۔
ہر وہ لفظ جو زبان سے نکلے چاہے وہ مکمل ہو یا ناقص۔
نفس کا حق کو قبول کرنے سے اعراض اور تکبر کرنا۔
ہر وہ چیر جسے اس کے کُل سے جدا کیا جاسکتا ہو۔
وہ معانی اور معارف جو دل پر بغیر کسی ارادے اور تکلُّفْ کے وارد ہوتے ہیں تاہم برقرار نہیں رہتے۔
مخصوص ادات جیسے مَن (کون)، ھَل (کیا)، کَيفَ (کیسے) وغیرہ کے ذریعے کسی ایسی شے کے متعلق معلومات دریافت کرنا جو پہلے سے معلوم نہ تھی۔
کسی لفظ سے ایک یا ایک سے زائد الفاظ اخذ کرنا جب کہ ان کے درمیان لفظ اور معنی میں باہمی نسبت ہو۔
وہ لفظ جس کے ذریعے کسی شے کی پہچان ہو اور وہ اُس پر دلالت کرے۔
دو چیزوں کا کسی معنی میں یکجا ہونا۔
بغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی شے کی ابتدا اور اس کی تخلیق کرنا۔
وہ قضایا اور مقدمات جو انسان کو اس کی عقلی قوت کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور اس میں کسی ایسے سبب کا دخل نہیں ہوتا جس سے تصدیق لازم آئے۔
اسماء اور مدلولات کا ایک دوسرے سے مختلف اور متغایر ہونا۔
ذات کا صفات کے ساتھ جڑ جانا ۔ (2)
ایک ہی مسمیٰ (وجود) کے کئی نام ہونا۔
ذہن میں کسی شے کی شکل کا آنا اور اس پر نفی یا اثبات کا حکم لگائے بغیر اس کی ماہیت کے مفہوم کا ادراک ہونا۔
ایہ اعتقاد رکھنا کہ خالق کی صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ مخلوق خالق کی مانند ہے۔
کسی چیز کو کسی ایسی چیز پر مرتب کرنا جو اسی کے مثل دوسری چیز پر مرتب ہے۔
کسی شے کا نہ ہونے کے بعد وجود میں آنا۔
وہ خلا جو کسی چیز کو سموئے ہوئے اور اسے گھیرے میں لیے ہو۔
کلام کو اس کے وضع کردہ اصلی معنی میں استعمال کرنا۔
چوپائے جن سے کام لیا جاتا ہے جیسے کھیتی باڑی کے لئے مخصوص گائیں وغیرہ۔
رات کو نکلنے والے پرندوں میں سے ایک چھوٹا سا پرندہ.
جہنم کے عذاب کا ختم ہونا، اس کے وجود اور عذاب کی مدت کا پورا ہونا ۔
دنیا کا زوال پذیر ہونا، اس کی بقاء کی مدت کا ختم ہونا اور اس کا بالکل ہلاک ہو جانا۔