ایسا اسم جو ذاتِ الہیہ پر دلالت کرتا ہے، جو کہ جملہ صفاتِ کمال و جلال اور جمال کی مالک ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کا سزاوار نہیں۔
جو اپنی مخلوقات کی حفاظت و صیانت کرتا ہے، اس کا علم اس کی ایجاد کردہ تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس نے انھیں لکھ رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قربت کے حصول کے ارادے سے دل کا کسی کام کے کرنے کا عزم کرنا۔
نمازی کا رکوع سے اٹھنے کے بعد سیدھا کھڑے ہونے پر ’’ربَّنا ولَكَ الحَمْدُ‘‘ کہنا۔
نماز میں سر اور پیٹھ کو ایک مخصوص انداز میں جھکا کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا۔
اللہ تعالیٰ کے وجود کا پختہ عقیدہ رکھنا اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہی پروردگار، پیدا کرنے والا، مالک اور تدبیر کرنے والا ہے اور وہی تنہا عبادت کے لائق ہے۔ اس کے اچھے اچھے نام اور اعلیٰ صفات ہیں اور یہ کہ وہ ان تمام باتوں میں یگانہ ہے۔ اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے۔
کمال اور جمال کے اوصاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا اور اسے تمام نقائص اور عیوب سے مبرّا ومنزہ قرار دینا۔
اللہ تعالی کے اوامر کو سرانجام دے کر اور اس کی منع کردہ اشیا سے پرہیز کرکے انسان کا اپنے اور اللہ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کے مابین کوئی حفاظتی ڈھال اور آڑ بنا لینا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام خصوصیات جیسے ربوبیت، الوہیت، اسما و صفات میں یکتا ماننا اور شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار کرنا۔
اس بات کا پختہ اعتقاد اور مکمل اقرار کہ اللہ تعالی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور ہر کام کی تدبیر اور انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
تمام ظاہری و باطنی، قولی و عملی اور اعتقادی عبادات کا مستحق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ماننا اور اس کے سوا ہر کسی سے عبادت کی نفی کرنا۔
یہ کہنا: ”أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله“ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں۔
پہلے چار خلفاے اسلام جو اللہ کے رسول محمد ﷺ کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امیر مقرر ہوئے۔ ان سے مراد ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم ہیں۔
وہ اہلِ ایمان و تقوی، جو اپنے تمام میں اللہ کا دھیان رکھتے ہوئے اس کے عذاب اور ناراضگی کے خوف اور اس کی رضا و جنت کی چاہت میں، اس کے احکام کی پابندی کرتے ہیں اور اس کی منع کردہ اشیا سے اجتناب کرتے ہیں۔
ہر وہ کام جس سے شریعت نے منع کیا ہو، وہ شرک تک لے جانے کا ذریعہ ہو اور اسے شرعی نصوص میں شرک کا نام دیا گیا ہو، تاہم وہ شرکِ اکبر کی حد تک نہ پہنچتا ہو۔
انسان کا اللہ کے حکم کو بجا لانے کے ارادے سے وہ کام کرنا جس کا اسے حکم دیا گیا ہے اور اس کام سے رک جانا جس سے اسے روکا گیا ہے۔ خواہ امر و نہی کا تعلق قول سے ہو یا عمل سے ہو یا پھر اعتقاد سے۔
عبادت ایک جامع لفظ ہے، جو اللہ تعالیٰ کے تمام محبوب و پسندیدہ، ظاہری و باطنی اقوال و افعال کو شامل ہے۔
اسلام اور توحید
اللہ تعالیٰ کو ہر نقص سے پاک قرار دینا اور اس کے لیے ہر قسم کے کمال کو ثابت کرنا۔
توحيد كو اپناتے ہوئے اللہ کے حضور سرِ تسلیم خم کردینا، اس کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے اس کے تابع ہو جانا اور شرک اور اہل شرک سے بے زار ہونا۔
ہر وہ شے جو اللہ کی ذات پر دلالت کرے اور اس کی طرف رہ نمائی کرے۔
عقائد، احکام اور آداب پر مشتمل دین کا واضح راستہ۔
اللہ تعالی کا وہ راستہ، جسے اس نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اپنے بندوں کے لیے متعین کیا اور اسے اپنے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب اور اپنی دی ہوئی خبر کی تصدیق کے ذریعہ، اپنے تک پہنچانے والا قرار دیا۔
اللہ کا کلام جو اس کے رسول محمد ﷺ پرنازل ہوا، جس کی تلاوت عبادت ہے، جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور جو ہم تک تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
شفاعت کے معنی ہیں کسی دوسرے کے لیے کچھ مانگنا۔ یہ لفظ زیادتی، کسی سے مل جانے اور کسی کے ساتھ شریک ہونے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
التَّفاؤُلُ : کسی اچھی بات سے خوش اور مسرور ہونا۔ اس کی ضد "التَّشاؤُمُ" یعنی فال بد لینا ہے۔
رقیہ: بچاؤ اور تحفظ۔ یہ حفاظت کی دعا کرنے اور محفوظ کرنے کے معنی میں بھی آتاہے۔ یہ لفظ در اصل "التَّرَقِّي" سے بنا ہے، جس کے معنی اوپر چڑھنے اور بلند ہونے کے ہیں۔
بندے کو ہمہ وقت اس بات کا علم ہو کہ پروردگار اس کے تمام احوال سے باخبر اور مطلع ہے بایں طور کے وہ پروردگار کی گرفت سے خوفزدہ رہے۔
قَسَم : قسم۔ ایک قول کی رو سے یہ دراصل ”القَسَامَةُ“ سے ماخوذ ہے، جس سے مراد وہ قسمیں ہیں، جو مقتول کے اولیا پر تقسیم کی جاتی ہیں۔
غوث طلب کرنا۔ غوث کے معنی بچانے اور مدد کرنے کے ہیں۔ اس کے اصل معنی ہیں : پریشانی کے وقت مدد کرنا۔ اس کے کچھ دوسرے معانی ہیں : نصرت طلب کرنا اور مدد مانگنا۔
کسی چیز کو ایک جانب جھکا دینا۔ اس کے معنی ہیں: کلام کو اس کے حقیقی اور صحیح معنی و مفہوم سے دوسرے معنی و مفہوم کی طرف پھیر دینا۔
حتمی اور قطعی بات۔ یہ تحقق اور شک و شبہ سے پرے علم کے لیے بھی آتا ہے۔ اس کی ضد "الشك" یعنی شک اور "الريب" یعنی شبہ ہے۔ اس کے اصل معنی سکون اور ظہور یا پھر ثبوت، استقرار اور دوام کے ہیں۔
تعطیل : فارغ کرنا، خالی کرنا اور کسی چیز کو بے کار چھوڑ دینا۔ یہ ’عَطَل‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خالی ہونے اور چھوڑنے کے ہیں۔ اور ’بئر معطلہ‘ سے مراد وہ کنواں ہے، جس پر لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہو۔ یعنی اس سے پانی لینے کے لیے آنا بند کردیا ہو ۔
تعویذہ (تعویذ) : ہر وہ چیز جس کی انسان پناہ لے۔ ’تعویذہ‘ اصل میں ’العوذ‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی بچانے، محفوظ رکھنے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ’’عَاذَ بِاللهِ‘‘ یعنی اس نے اللہ کی پناہ لی۔ ’تعویذ‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ برائیوں سے بچاتی اور محفوظ رکھتی ہے۔
تَکْیِیْفْ: یہ ’کَیْف‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں : ہیئت، ماہیت اور شکل۔ تکییف کے معنی ہیں : صفات کی کیفیت، ان کی شکل یا ہیئت، جیسے ان کی لمبائی، چوڑائی اور حجم وغیرہ بیان کرنا۔
تماثیل، تمثال کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں مجسمہ۔ کہا جاتا ہے : "مَثَّلَ لَهُ الشَّيءَ" یعنی اس کی ایسی تصویر بنائی کہ جیسے وہ تصویر اسے دیکھ رہی ہو۔ کسی بھی چیز کا سایہ اس کا تمثال (عکس) ہوتا ہے۔ یہ دراصل ”مَثَّلتُ الشَّيْءَ بِالشَّيْءِ“ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں: میں نے فلاں چیز کا فلاں چیز سے اندازہ لگایا۔
تنجیم، "نَجَّمَ" فعل کا مصدر ہے، جس کے معنی ستاروں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے ہیں۔ جب کہ اس کا مادہ طلوع اور ظاہر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
التَّنْزِيهُ : بری کرنا اور پاک کرنا۔ جب کہ "التَّنَزُّهُ" کے معنی ہیں : دور ہونا اور نقائص سے اونچا ہونا۔ یہ اصل میں "النَّزْه" سے لیا گيا ہے، جس کے معنی دوری کے ہیں۔
التَّنَطُّعُ (غلو اور تکلف سے کام لینا): کسی چیز کے بارے میں کھود کرید کرنا اور تکلف و بناوٹ سے کام لینا۔ کہا جاتاہے: ”تَنَطَّعَ في الكلامِ“ یعنی اس نے فصاحت ظاہر کرنے کے لیے خوب چرب زبانی سے کام لیا۔ یہ اصلا ’نِطَعَ‘ سے ماخوذ ہے، جو منہ کے اوپری غار یعنی تالو کو کہتے ہیں۔ لیکن بعد میں اس کا استعمال کہیں بھی تعمق سے کام لینے کے لیے ہونے لگا۔ بات چاہے قول کی ہو یا عمل کی۔
خاکساری و فروتنی اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر، بے وقعت اور کم زور ظاہر کرنا۔ تواضع کی ضد تکبر اور اظہارِ برتری ہے۔ دراصل ’تواضع‘ کا لفظ 'وضْع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پستی اور انحطاط کے ہیں۔ اس کے دیگر معانی میں خشوع، سہولت اور نرمی وغیرہ داخل ہیں۔
الحِنْثُ : بہت بڑا گناہ۔ اس کے معنی قسم کے برخلاف کرنے اور قسم توڑنے کے بھی آتے ہيں۔ کہا جاتا ہے: ”حَنِثَ في يَمِينِهِ“ یعنی اس نے اپنی قسم توڑ دی، اس معاملے میں گناہ کا ارتکاب کیا اور اُسے پورا نہیں کیا۔ اس کی ضد ”البرّ“ یعنی قسم پوری کرنا ہے۔
خشیت: خوف و گھبراہٹ۔ ایک قول کی رو سے خشیت دراصل وہ خوف ہے، جس میں تعظیم کی آمیزش ہو۔ خشیت لفظ کے مفہوم سے حاصل ہونے والا خوف اکثر اس چیز سے واقفیت کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے، جس سے خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں ”الخَشي“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی سوکھے پودے کے ہیں۔
کسی نفع کے حصول یا نقصان سے بچنے کے لیے دل کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی طرف متوجہ ہونا اوراس سے لو لگانا۔
عُروجْ: چڑھنا اوربلند ہونا۔ ’معراج‘ چڑھنے کا آلہ جیسے سیڑھی وغیرہ جس کے ذریعے انسان نیچے سے اوپر چڑھتا ہے۔
کرسی: تخت۔ اس سے مراد وہ چیز ہے، جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ عرب کسی بھی شے کی اصل کو ’کِرس‘ کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق ’عِلْم‘ پر بھی ہوتا ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے علما کو ’الکراسی‘ کہا جاتا ہے۔
اوپر چڑھنے کا آلہ۔ جیسے سیڑھی، جس سے نیچے سے اوپر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اصلا یہ کلمہ اونچا ہونے اور چڑھنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے : "عرج إلى السطح وإلى السماء، يعرج، عروجا ومعرجا" یعنی وہ چھت پر چڑھا۔
عُجمہ: واضح اور قابل فہم انداز میں بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کلمہ سکوت اور خاموشی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی سے ’اعجمی‘ کا لفظ نکلا ہے، جس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے، جو قابل فہم اور واضح انداز میں بات نہ کر پاتا ہو، گرچہ وہ عرب ہی کیوں ہو۔
مداہنت: جو بات دل میں ہو انسان کا اس کے برخلاف ظاہر کرنا۔ اس کا معنی ’کسی سے بنا کر رکھنا‘یعنی مصنوعی طور طریقہ بھی آتا ہے۔
"المَعْصِيَةُ"اور "العِصْيانُ" : اطاعت کے دائرے سے نکل جانا اور فرماں برداری سے کنارہ کش ہوجانا۔ اس کی ضد اطاعت ہے۔
النِّدُّ : مثل اور نظیر۔ ’نِد‘ اس چیز کو کہتے ہیں، جو كسى چیز کے مثل ہو اور اس کے امور میں اس کى مخالفت كرتا ہو، اور ’نِد‘ ہمیشہ مخالف ہی ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی ایک دوسرے سے جدا ہونے اور دور ہونے کے ہیں۔ اسی سے ضد، مخالف اور مثل کو ’نِد‘ کا نام دیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ اپنے مثیل کو دور کردیتا اور اس سے جُدا ہوجاتا ہے۔
دوستی اور محبت۔ یہ لفظ اصل میں "الخَلَل" سے لیا گیا ہے، جو دو چیزوں کے درمیان کی خالی جگہ کو کہتے ہیں۔ جب کہ "التَّخَلُّلُ" کے معنی ہیں کسی چیز کا دوسری چیز کے بیچ میں داخل ہو جانا۔ محبت کو "خُلَّة" اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ دل کے اندر جگہ بنا لیتی ہے۔
اطاعت اور تقرب۔ ’عبودیت‘ کے حقیقی معنی ہیں : انکساری اور نرم خوئی۔ اس کے کچھ اور معانی ہیں : خضوع اور تابع دار ہونا۔
عرش: بادشاہ کا تخت، اسی سے کہا جاتا ہے: ”جَلَسَ المَلِكُ على عَرْشِهِ“ کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا۔ عرش کے معنی گھر کی چھت کے بھی آتے ہیں۔ جب کہ اس کے اصل معنی ہیں : بلند اور اونچا ہونا۔
جحود : انکار۔ جحود اقرار کی ضد ہے۔ اس کے اصل معنی ہر چیز کی قلت کے ہیں۔
رجا : امید۔ اس کی ضد مایوسی اور نا امیدی ہے۔ "الرَّجاءُ" کا لفظ کسی چیز کے لالچ کے معنی میں بھی آتا ہے۔
خوف: ڈر اور گھبراہٹ۔ اس کی ضد امن ہے۔ اس کے اصل معنی "النَّقْصُ" کم ہونے اور گھٹنے کے ہیں۔ اس کچھ دوسرے معانی ہیں: "الجُبْنُ" یعنی بزدلی، "الوَجَلُ" یعنی گھبراہٹ، "الرَّهْبَةُ" یعنی ڈر اور "الرُّعْبُ" یعنی رعب۔
الغفران: درگزر کرنا اور معاف کرنا۔ ’غُفران‘ کے معنی گناہ سے چشم پوشی کرنے اور اس پر مواخذہ نہ کرنے کے بھی آتے ہیں۔ ’غُفران‘ کا لفظ دراصل ’غَفر‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: ڈھانکنا، چھپانا اور داخل کرنا۔
کرامت : عزت و شرف۔ یہ "لكَرَم" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی سخاوت اور خیر کی کثرت کے ہیں۔ اس کی ضد بخل ہے۔ یہ لفظ شرافت و نجابت اور فضل کے معنی میں بھی آتا ہے۔
کسی کی تعریف میں مبالغے سے کام لینا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یہ اصلا 'الطراوة' سے لیا گیا ہے، جو نرمی اور جدت کے معنی میں ہے۔ اسی سے مدح میں غلو کو 'إطراء' کہا جاتا ہے، کیوں کہ تعریف کرنے والا ممدوح کے نئے نئے اوصاف سامنے لاتا ہے۔
عیسیٰ کا اپنی روح و بدن کے ساتھ اللہ کے حکم سے دوسرے آسمان پر چڑھ جانا۔ یہ اللہ کی طرف سے عیسیٰ پر رحمت اور ان کی عزت افزائی تھی ۔
انابت: توبہ کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنا۔ کہا جاتاہے: "أنابَ" یعنی وہ اطاعت کی طرف لوٹ آیا۔ جب کہ "نابَ إلى الله" کے معنی ہيں: اس نے توبہ کی۔
کسی چیز کا تین کی تعداد میں ہونا۔
تضرع: تذلل اور خضوع۔ یہ 'الضَّرَع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور کم زوری کے ہیں۔
حق: ثابت۔ اس کی ضد باطل ہے۔ اس کا اطلاق واجب اور لازم پر بھی ہوتا ہے اور اس کا استعمال تاکیدی اور متیقن چیز کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
الرَّهْبَةُ: خوف اور گھبراہٹ۔ "تَرَهَّبَ غيرَهُ" کے معنی ہيں : اس نے دوسرے کو دھمکی دی۔
صِدِّیقیت: یہ 'صدّیق' کی طرف منسوت لفظ ہے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو ہمیشہ سچ بولنے والا، حد درجہ سچائی سے کام لینے والا، اسے لازم پکڑنے والا ہو اور اپنے عمل سے اپنے قول کو سچ کر دکھاتا ہو۔ 'صدق' کا لفظ 'کَذب' کی ضد ہے۔
عرّاف : یہ ’عارف‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد کاہن، ہاتھ دیکھنے والا اور نجومی ہے، جو غیب کی باتوں اور مستقبل میں ہونے والے امور کو جاننے کا دعوی کرتا ہو۔
القنوط: کسی شے سے مایوس ہونا۔ ’قُنُوط‘ کی ضد ’رجاء‘ اور ’طمع‘ ہیں۔ قنوط کے اصل معنی روکنے کے ہیں اور اسی سے مایوسی کو قنوط کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مایوس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی رحمت سے روک لیتا ہے۔
وسیلہ وہ چیز ہے، جس کے ذریعے کسی دوسرے تک پہنچا جائے۔ لفظ وسیلہ کسی چیز تک پہنچنے کے سبب اور راستے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہ دراصل "التوصل" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی رغبت اور طلب کے ہیں۔
دلیل : کسی چیز کا نشان۔ دلیل اسے کہتے ہیں جس سے استدلال کیا جائے۔ یہ لفظ دلالت کرنے والے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق دلیل کسی چیز کی طرف رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کے ہیں۔
طیب کے لغوی معنى لذیذ، حلال اور جائز کے ہیں۔ لفظ "الطَيِّب" "الطِّيبَةِ" سے مشتق ہے، جس کے معنى ہیں خباثت سے سالم اور محفوظ ہونا۔ "الطَّيِّب" کى ضد "الخَبِيثُ" آتی ہے۔ لفظ طیب کا اطلاق نیک، اچھے، آسان، پاکیزہ اور صاف ستھرے وغیرہ پر بھى ہوتا ہے۔
ایک ایسا عقیدہ جو اس بات پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی بعینہ مخلوقات کا وجود ہے۔
وہ شرک جو نیت و ارادے اور دل کے اعمال میں ہوتا ہے۔ (3)
وہ صفات جن کی اللہ تعالی نے اپنے آپ سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان پر نفی کی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے متعلق ہیں اور مشیت کے مطابق متجدد ہوتی رہتی ہیں۔
شرعی نصوص کو ان کی اصل سے ہٹانا اور ان کے حقیقی ثابت شدہ معانی اور حقائق سے پھیر دینا یا پھر کائناتی دلائل کی اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا بایں طور کہ یہ کہا جائے کہ یہ اشیاء اللہ کے علاوہ کسی اور کی تخلیق ہیں یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ان کی تخلیق میں شریک ہے یا پھر وہ ان اشیاء کی تخلیق میں اللہ کا معاون ہے۔
ربوبیت کی خصوصیات جیسے تخلیق، رزق رسانی اور کارسازی وغیرہ میں غیر اللہ کو اللہ تعالی کا ہم سر بنانا یا اِن میں سے کسی شے کی غیر اللہ کی طرف نسبت کرنا۔
وہ صفات جو ازلی و ابدی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم و لازم ہیں، اور ان کا مشیت و اختیار سے کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ ساتھ دلیلِ شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
مخالفت و ہٹ دھرمی کے طور پر حق کو ٹھکرا دینا بایں طور کہ وہ نہ تو اسے جاننے کی کوشش کرے اور نہ ہی اس پر عمل کرے، چاہے وہ قول ہو یا عمل یا اعتقاد ہو۔
ذوالحجہ کے مہینے کا نواں دن۔
لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے ایسے معنی کی طرف پھیر دینا جو اس سے مختلف ہو۔
ستاروں کے طلوع و غروب ہونے کی طرف بارش کی نسبت کرنا یا ان سے پانی طلب کرنا۔
کسی شے کا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا۔
جس کا لفظ ایک اور معنی متعدد ہو اسے مشترک کہا جاتا ہے۔
یہ ایک قسم کا جادو ہے جو شوہر کے دل میں بیوی یا بیوی کے دل میں شوہر کی محبت ڈالنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔
اطمینانِ قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے اس کے شرعی اور تکوینی امر میں سرِتسلیم خم کردینا اور عاجزی و فروتنی کا اظہار کرنا۔
پسندیدہ تین صدیوں کے بعد آنے والا ہر وہ شخص جس نے اہل بدعت اور خواہشات کے لوگوں کا راستہ اختیار کیا۔
صفات: يعنی اللہ تعالی کی وہ صفاتِ کمال وجمال اور صفاتِ جلال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور وہ ذاتِ الہی کو دیگر ذوات سے ممتاز کرتی ہیں۔
انسان کا اپنے عمل سے اللہ کی رضا جوئی کے بجائے کوئی اور ارادہ رکھنا بایں طور کہ اپنے اعمال سے اس کی نیت دنیا کا حصول، ریاکاری یا اس طرح کی کوئی اور شے ہو چاہے یہ ارادہ کلی ہو یا جزوی۔(1)
جسموں کےاندر ثابت وقائم وہ خصوصیات اور قوتیں جو ان میں حلول کئے ہوتی ہیں۔
دشمن سے لڑنے کے لئے کسی اور سے اعانت اور مدد مانگنا ۔ (2)
آسمان میں موجود تاروں میں سے ہر تارے کا نام ۔
اللہ تعالی کے احکام کی بجاآوری کرکے اور اس کے منع کردہ امور سے اجتناب کرکے اس کی رضا مندی کے حصول اور اس سے ضروریات کی تکمیل کے لیے اس سے قریب ہونا۔
کسی دوسرے سے شدید ضرورت کے وقت میں مدد طلب کرنا۔
تفکر اور تدبّر کے ذریعہ کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا۔
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
ہر وہ شے جو از راہِ شریعت ثابت ہے جیسے جنت و جہنم اور روزِ قیامت کے احوال۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے اور ان کے اثبات میں عقلی دلیل اور فطرت سلیمہ مشترک ہیں۔
انسان کے دل کو ڈھانپ دینا یہاں تک کہ وہ اپنے فائدہ کی چیز کو کرنے اور اپنے نقصان کی چیز کو چھوڑنے سے غافل ہو جائے۔
نفس کی کمزوری اور دل کا خوف جو انسان کو بوقتِ ابتلا و آزمائش غم میں ڈال دے۔
کسی شے کو مضبوط کرنا اور اس میں فساد اور خلل واقع ہونے کو روکنا۔
اللہ بڑا، پاک اور بلند وبرتر ہے۔
اللہ کو جسم کے ساتھ متصف کرنا (یعنی اللہ کو مجسم بنانا)۔
اللہ کی صفاتِ جمال اور اچھے افعال کا ذکر کرکے اس کی قابل تعریف خوبیوں کو بار بار بیان کرنا اور انہیں شمار کرنا۔
غیرُ اللہ سے مانگنا کہ جس کے دینے پر صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی قدرت رکھتا ہے جیسے مصائب کا ازالہ یا فوائد کا حصول، اسے دعا میں شرک کرنا کہتے ہیں۔
وہ صفات جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اپنی کتاب میں، یا اپنے رسولﷺ کی زبانی ان کی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔
ایسی نسبت جس کو اس کے غیر کو سمجھنے ہی سے سمجھنا ممکن ہے۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ دلیل شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
شہوت آمیز حد سے زیادہ محبت۔
اچھا گمان کرنا اور اچھی امید رکھنا۔
ایسا مرکب لفظ جو قابلِ فہم معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
بلا پر و پیکان کے تیر۔
کسی چیز کو بغیر کسی نمونے یا مثال کے (عدم سے) وجود میں لانا۔
روئے زمین پر موجود سبھی مخلوق کو انام کہتے ہیں۔
مستقبل میں ایسی ہمیشگی جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔
افعال و احکام سے مقصود غایات اور حکمتیں۔
زمین کے کنارے اور اس میں جو کچھ حوادث (نئی چیزیں) اور مخلوقات ہیں، نیز آسمان کے کنارے اور ان میں موجود انوکھی چیزیں اور نشانیاں۔ ’اُفق اعلی‘ اہلِ تصوف کے خاص اصطلاحات میں سے ہے، انہوں نے اس کا ایک فاسد معنی ایجاد کر رکھا ہے، اور وہ : روح کی انتہا کو پہنچنا اور الٰہ (معبود) کے مظہر اور اس کی صفات میں ظاہر ہونا ہے۔ جب مخلوق اس درجہ تک پہنچ جائے تو وہ تمام مخلوق پر فائق ہوجاتی ہے اور اس کے اندر مُردے کو زندہ کرنے وغیرہ جیسی الٰہی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ صوفیا ’افق اعلی‘ اور ’افق مبین‘ کے مابین فرق کرتے ہیں، چنانچہ ان کے ہاں ’افق مبین‘ سےمراد مقامِ قلب کی انتہا ہے۔ جب کہ اہلِ سنت افق اعلی اور افق مبین کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے، یہ دونوں طلوع شمس کے کنارے کے نام ہیں، اور یہ دونوں جبریل علیہ السلام کے نبی ﷺ سے (اپنی حقیقی شکل و صورت میں) ملاقات کے موقع و محل کے دو وصف ہیں اور وہ دونوں بلندی اور وضوح سے عبارت ہیں۔ افق اعلی: مشرق کی سمت میں زمین سے بعید ترین جگہ ہے۔ اس کا افق مبین بھی نام ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں جبریل علیہ السلام اس وقت نمودار ہوئے تھے جب نبی ﷺ نے ان کو دیکھا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں ان کی اس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جس پر اللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے، تو انہوں نے اپنے آپ کو دو بار دکھایا؛ ایک بار زمین پر جب آپ ﷺ غارِ حرا میں تھے، تو جبریل علیہ السلام مشرق سے نمودار ہوئے اور انہوں نے مشرق سے مغرب تک کی وسعت کو گھیر لیا، اور دوسری بار آسمان میں سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ ’افق اعلی‘ کی اصطلاح کا ذکر عقیدہ میں توحیدِ اسماء وصفات کے باب میں رؤیتِ باری تعالی کے مسئلہ میں بات کرتے وقت آتا ہے۔
غائب ہونے والا اور اوٹ میں چھپ جانے والا۔
وہ وقت جس کا کوئی محدد اختتام ہو۔
بغیر سابقہ نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنا اور بنانا۔
بلا استدلال اور غور و فکر کے نفس میں ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی معرفت۔
وہ تمام موجودات جوعلم میں آسکتی ہوں اور جن کے بارے میں خبر دی جا سکے۔ (2)
اللہ تعالی کا نبی ﷺ کی طرف جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام کے واسطے سے وحی کردہ کلام۔
جو کچھ بھی نھیں ہے اور خارج میں اس کی کوئی حقیقت اور وجود نھیں ہے۔
جس شخص سے قدرت اور ارادہ کے ساتھ فعل کا صادر ہونا درست ہو۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بعض مخلوقات کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا ہے، لیکن بعض کے ساتھ نہیں.
وہ خالی جگہ جس میں کوئی شے نہ ہو۔
کسی شے کا وجود خود اپنے وجود پر موقوف ہونا خواہ کسی واسطہ سے ہو یا بغیر واسطہ کے ہو۔
تن اور بدن۔
ہر وہ شے جس کا عقلی طور پر خارج میں وجود متصور نہ ہو۔
ایسے الفاظ جن میں صحیح اور غلط دونوں معانی کا احتمال ہو؛ بایں طور کہ تفصیل اور توضیح طلب کرنے کے بعد ہی ان کے معانی کا ادراک ہوسکے۔
وہ غیر موجود جو کچھ نہ ہو اور اس کا خارج میں کوئی وجود نہ ہو ۔
جس کا خارج میں وجود ممکن نہ ہو، مگر دماغ اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔
وہ شے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہو اور بذاتِ خود اس کا کوئی وجود نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی اور کی وجہ سے ہو ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ دین جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔
زمین پر لکیریں کھینچ کر یا کنکریاں پھینک کر، یا اسی طرح کی چیزوں کے ذریعہ غیب کی خبر دینا۔
حقائق کو چھپانے اور دھوکہ دینے کے مقصد سے نقل و عقل سے ثابت شدہ حقائق کی ان کا علم ہونے کے باوجود نفی کرنا۔
ایسا معنی جو متکلم سبحانہ وتعالیٰ کی نفس کے ساتھ قائم ہو، جس میں کوئی حرف اور آواز نہ ہو، نیز اس کا تعلق اس کی مشیت وقدرت سے بھی نہ ہو۔
اللہ کے دشمنوں سے قول اور فعل کے ذریعہ دشمنی کا اظہار کرنا، اور ان سے براءت ظاہر کرنا نیز ظاہری اور باطنی طور پر ان سے دوری اختیار کرنا۔
لفظ کی تفسیر اس کے پورے معنیٰ کے ساتھ کرنا۔
ایسی دو چیزیں جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ جمع نہ ہوسکیں، تاہم ممکن ہے کہ وہ دونوں ہی نہ پائی جائیں، جیسے سیاہی اور سفیدی۔
ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہو اور وہ صرف اسی جگہ پائی جائے جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔
لفظ کو کسی تعلق کی بنا پر اس کے معنی موضوع لہ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنا بشرطیکہ اس کے ساتھ قرینہ بھی ہو۔
جس کا معنی ایک اور لفظ مختلف ہو۔
ما ھو (وہ کیا ہے)؟ كے جواب ميں کہی جانے والی بات جو نفس میں اس شے کا تصور پیدا کردے۔
جو چیز بھی انسان اپنی مرضی سے نفع کے حصول یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اسے کسْب کہا جاتا ہے۔
ہر وہ چیر جسے اس کے کُل سے جدا کیا جاسکتا ہو۔
مخصوص ادات جیسے مَن (کون)، ھَل (کیا)، کَيفَ (کیسے) وغیرہ کے ذریعے کسی ایسی شے کے متعلق معلومات دریافت کرنا جو پہلے سے معلوم نہ تھی۔
کسی لفظ سے ایک یا ایک سے زائد الفاظ اخذ کرنا جب کہ ان کے درمیان لفظ اور معنی میں باہمی نسبت ہو۔
وہ لفظ جس کے ذریعے کسی شے کی پہچان ہو اور وہ اُس پر دلالت کرے۔
دو چیزوں کا کسی معنی میں یکجا ہونا۔
بغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی شے کی ابتدا اور اس کی تخلیق کرنا۔
وہ قضایا اور مقدمات جو انسان کو اس کی عقلی قوت کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور اس میں کسی ایسے سبب کا دخل نہیں ہوتا جس سے تصدیق لازم آئے۔
اسماء اور مدلولات کا ایک دوسرے سے مختلف اور متغایر ہونا۔
ذات کا صفات کے ساتھ جڑ جانا ۔ (2)
ایک ہی مسمیٰ (وجود) کے کئی نام ہونا۔
کسی چیز کو کسی ایسی چیز پر مرتب کرنا جو اسی کے مثل دوسری چیز پر مرتب ہے۔
ذہن میں کسی شے کی شکل کا آنا اور اس پر نفی یا اثبات کا حکم لگائے بغیر اس کی ماہیت کے مفہوم کا ادراک ہونا۔
ایہ اعتقاد رکھنا کہ خالق کی صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ مخلوق خالق کی مانند ہے۔
کسی شے کا نہ ہونے کے بعد وجود میں آنا۔
وہ خلا جو کسی چیز کو سموئے ہوئے اور اسے گھیرے میں لیے ہو۔
کلام کو اس کے وضع کردہ اصلی معنی میں استعمال کرنا۔
چوپائے جن سے کام لیا جاتا ہے جیسے کھیتی باڑی کے لئے مخصوص گائیں وغیرہ۔
رات کو نکلنے والے پرندوں میں سے ایک چھوٹا سا پرندہ.