اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام خصوصیات جیسے ربوبیت، الوہیت، اسما و صفات میں یکتا ماننا اور شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار کرنا۔
اس بات کا پختہ اعتقاد اور مکمل اقرار کہ اللہ تعالی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور ہر کام کی تدبیر اور انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اسلام اور توحید
اللہ تعالی کا وہ راستہ، جسے اس نے اپنے رسول ﷺ کی زبانی اپنے بندوں کے لیے متعین کیا اور اسے اپنے اوامر کی بجا آوری اور نواہی سے اجتناب اور اپنی دی ہوئی خبر کی تصدیق کے ذریعہ، اپنے تک پہنچانے والا قرار دیا۔
تعطیل : فارغ کرنا، خالی کرنا اور کسی چیز کو بے کار چھوڑ دینا۔ یہ ’عَطَل‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خالی ہونے اور چھوڑنے کے ہیں۔ اور ’بئر معطلہ‘ سے مراد وہ کنواں ہے، جس پر لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہو۔ یعنی اس سے پانی لینے کے لیے آنا بند کردیا ہو ۔
تعویذہ (تعویذ) : ہر وہ چیز جس کی انسان پناہ لے۔ ’تعویذہ‘ اصل میں ’العوذ‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی بچانے، محفوظ رکھنے اور حفاظت کرنے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے: ’’عَاذَ بِاللهِ‘‘ یعنی اس نے اللہ کی پناہ لی۔ ’تعویذ‘ کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ برائیوں سے بچاتی اور محفوظ رکھتی ہے۔
تنجیم، "نَجَّمَ" فعل کا مصدر ہے، جس کے معنی ستاروں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے ہیں۔ جب کہ اس کا مادہ طلوع اور ظاہر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
التَّنْزِيهُ : بری کرنا اور پاک کرنا۔ جب کہ "التَّنَزُّهُ" کے معنی ہیں : دور ہونا اور نقائص سے اونچا ہونا۔ یہ اصل میں "النَّزْه" سے لیا گيا ہے، جس کے معنی دوری کے ہیں۔
ایک ایسا عقیدہ جو اس بات پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی بعینہ مخلوقات کا وجود ہے۔
وہ صفات جن کی اللہ تعالی نے اپنے آپ سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان پر نفی کی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
عرش: بادشاہ کا تخت، اسی سے کہا جاتا ہے: ”جَلَسَ المَلِكُ على عَرْشِهِ“ کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا۔ عرش کے معنی گھر کی چھت کے بھی آتے ہیں۔ جب کہ اس کے اصل معنی ہیں : بلند اور اونچا ہونا۔
ربوبیت کی خصوصیات جیسے تخلیق، رزق رسانی اور کارسازی وغیرہ میں غیر اللہ کو اللہ تعالی کا ہم سر بنانا یا اِن میں سے کسی شے کی غیر اللہ کی طرف نسبت کرنا۔
وہ صفات جو ازلی و ابدی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم و لازم ہیں، اور ان کا مشیت و اختیار سے کوئی تعلق نہیں۔
عرّاف : یہ ’عارف‘ سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس سے مراد کاہن، ہاتھ دیکھنے والا اور نجومی ہے، جو غیب کی باتوں اور مستقبل میں ہونے والے امور کو جاننے کا دعوی کرتا ہو۔
القنوط: کسی شے سے مایوس ہونا۔ ’قُنُوط‘ کی ضد ’رجاء‘ اور ’طمع‘ ہیں۔ قنوط کے اصل معنی روکنے کے ہیں اور اسی سے مایوسی کو قنوط کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مایوس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی رحمت سے روک لیتا ہے۔
ستاروں کے طلوع و غروب ہونے کی طرف بارش کی نسبت کرنا یا ان سے پانی طلب کرنا۔
یہ ایک قسم کا جادو ہے جو شوہر کے دل میں بیوی یا بیوی کے دل میں شوہر کی محبت ڈالنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔
جسموں کےاندر ثابت وقائم وہ خصوصیات اور قوتیں جو ان میں حلول کئے ہوتی ہیں۔
آسمان میں موجود تاروں میں سے ہر تارے کا نام ۔
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
انسان کے دل کو ڈھانپ دینا یہاں تک کہ وہ اپنے فائدہ کی چیز کو کرنے اور اپنے نقصان کی چیز کو چھوڑنے سے غافل ہو جائے۔
نفس کی کمزوری اور دل کا خوف جو انسان کو بوقتِ ابتلا و آزمائش غم میں ڈال دے۔
کسی شے کو مضبوط کرنا اور اس میں فساد اور خلل واقع ہونے کو روکنا۔
اللہ بڑا، پاک اور بلند وبرتر ہے۔
اللہ کو جسم کے ساتھ متصف کرنا (یعنی اللہ کو مجسم بنانا)۔
وہ صفات جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اپنی کتاب میں، یا اپنے رسولﷺ کی زبانی ان کی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔
کسی چیز کو بغیر کسی نمونے یا مثال کے (عدم سے) وجود میں لانا۔
مستقبل میں ایسی ہمیشگی جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔
زمین کے کنارے اور اس میں جو کچھ حوادث (نئی چیزیں) اور مخلوقات ہیں، نیز آسمان کے کنارے اور ان میں موجود انوکھی چیزیں اور نشانیاں۔ ’اُفق اعلی‘ اہلِ تصوف کے خاص اصطلاحات میں سے ہے، انہوں نے اس کا ایک فاسد معنی ایجاد کر رکھا ہے، اور وہ : روح کی انتہا کو پہنچنا اور الٰہ (معبود) کے مظہر اور اس کی صفات میں ظاہر ہونا ہے۔ جب مخلوق اس درجہ تک پہنچ جائے تو وہ تمام مخلوق پر فائق ہوجاتی ہے اور اس کے اندر مُردے کو زندہ کرنے وغیرہ جیسی الٰہی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ صوفیا ’افق اعلی‘ اور ’افق مبین‘ کے مابین فرق کرتے ہیں، چنانچہ ان کے ہاں ’افق مبین‘ سےمراد مقامِ قلب کی انتہا ہے۔ جب کہ اہلِ سنت افق اعلی اور افق مبین کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے، یہ دونوں طلوع شمس کے کنارے کے نام ہیں، اور یہ دونوں جبریل علیہ السلام کے نبی ﷺ سے (اپنی حقیقی شکل و صورت میں) ملاقات کے موقع و محل کے دو وصف ہیں اور وہ دونوں بلندی اور وضوح سے عبارت ہیں۔ افق اعلی: مشرق کی سمت میں زمین سے بعید ترین جگہ ہے۔ اس کا افق مبین بھی نام ہے، یہ وہی جگہ ہے جہاں جبریل علیہ السلام اس وقت نمودار ہوئے تھے جب نبی ﷺ نے ان کو دیکھا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام سے مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں ان کی اس شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں جس پر اللہ تعالی نے انہیں پیدا فرمایا ہے، تو انہوں نے اپنے آپ کو دو بار دکھایا؛ ایک بار زمین پر جب آپ ﷺ غارِ حرا میں تھے، تو جبریل علیہ السلام مشرق سے نمودار ہوئے اور انہوں نے مشرق سے مغرب تک کی وسعت کو گھیر لیا، اور دوسری بار آسمان میں سدرۃ المنتہی کے پاس دیکھا۔ ’افق اعلی‘ کی اصطلاح کا ذکر عقیدہ میں توحیدِ اسماء وصفات کے باب میں رؤیتِ باری تعالی کے مسئلہ میں بات کرتے وقت آتا ہے۔
غائب ہونے والا اور اوٹ میں چھپ جانے والا۔
روئے زمین پر موجود سبھی مخلوق کو انام کہتے ہیں۔
بغیر سابقہ نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنا اور بنانا۔
کسی شے کا وجود خود اپنے وجود پر موقوف ہونا خواہ کسی واسطہ سے ہو یا بغیر واسطہ کے ہو۔
وہ شے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہو اور بذاتِ خود اس کا کوئی وجود نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی اور کی وجہ سے ہو ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا وہ دین جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرمایا ہے اور اس کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔
ایسی دو چیزیں جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ جمع نہ ہوسکیں، تاہم ممکن ہے کہ وہ دونوں ہی نہ پائی جائیں، جیسے سیاہی اور سفیدی۔
جو کچھ بھی نھیں ہے اور خارج میں اس کی کوئی حقیقت اور وجود نھیں ہے۔
ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہو اور وہ صرف اسی جگہ پائی جائے جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔
ما ھو (وہ کیا ہے)؟ كے جواب ميں کہی جانے والی بات جو نفس میں اس شے کا تصور پیدا کردے۔
جو چیز بھی انسان اپنی مرضی سے نفع کے حصول یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اسے کسْب کہا جاتا ہے۔
مخصوص ادات جیسے مَن (کون)، ھَل (کیا)، کَيفَ (کیسے) وغیرہ کے ذریعے کسی ایسی شے کے متعلق معلومات دریافت کرنا جو پہلے سے معلوم نہ تھی۔
دو چیزوں کا کسی معنی میں یکجا ہونا۔
بغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی شے کی ابتدا اور اس کی تخلیق کرنا۔
وہ قضایا اور مقدمات جو انسان کو اس کی عقلی قوت کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور اس میں کسی ایسے سبب کا دخل نہیں ہوتا جس سے تصدیق لازم آئے۔
اسماء اور مدلولات کا ایک دوسرے سے مختلف اور متغایر ہونا۔
کسی چیز کو کسی ایسی چیز پر مرتب کرنا جو اسی کے مثل دوسری چیز پر مرتب ہے۔