ایسا اسم جو ذاتِ الہیہ پر دلالت کرتا ہے، جو کہ جملہ صفاتِ کمال و جلال اور جمال کی مالک ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کا سزاوار نہیں۔
جو اپنی مخلوقات کی حفاظت و صیانت کرتا ہے، اس کا علم اس کی ایجاد کردہ تمام اشیا کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس نے انھیں لکھ رکھا ہے۔
نمازی کا رکوع سے اٹھنے کے بعد سیدھا کھڑے ہونے پر ’’ربَّنا ولَكَ الحَمْدُ‘‘ کہنا۔
کمال اور جمال کے اوصاف کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا اور اسے تمام نقائص اور عیوب سے مبرّا ومنزہ قرار دینا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام خصوصیات جیسے ربوبیت، الوہیت، اسما و صفات میں یکتا ماننا اور شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار کرنا۔
پہلے چار خلفاے اسلام جو اللہ کے رسول محمد ﷺ کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امیر مقرر ہوئے۔ ان سے مراد ابو بکر صدیق، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہم ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو ہر نقص سے پاک قرار دینا اور اس کے لیے ہر قسم کے کمال کو ثابت کرنا۔
ہر وہ شے جو اللہ کی ذات پر دلالت کرے اور اس کی طرف رہ نمائی کرے۔
اللہ کا کلام جو اس کے رسول محمد ﷺ پرنازل ہوا، جس کی تلاوت عبادت ہے، جو صحیفوں میں لکھا ہوا ہے اور جو ہم تک تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
بندے کو ہمہ وقت اس بات کا علم ہو کہ پروردگار اس کے تمام احوال سے باخبر اور مطلع ہے بایں طور کے وہ پروردگار کی گرفت سے خوفزدہ رہے۔
کسی چیز کو ایک جانب جھکا دینا۔ اس کے معنی ہیں: کلام کو اس کے حقیقی اور صحیح معنی و مفہوم سے دوسرے معنی و مفہوم کی طرف پھیر دینا۔
تعطیل : فارغ کرنا، خالی کرنا اور کسی چیز کو بے کار چھوڑ دینا۔ یہ ’عَطَل‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خالی ہونے اور چھوڑنے کے ہیں۔ اور ’بئر معطلہ‘ سے مراد وہ کنواں ہے، جس پر لوگوں نے جانا چھوڑ دیا ہو۔ یعنی اس سے پانی لینے کے لیے آنا بند کردیا ہو ۔
تَکْیِیْفْ: یہ ’کَیْف‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں : ہیئت، ماہیت اور شکل۔ تکییف کے معنی ہیں : صفات کی کیفیت، ان کی شکل یا ہیئت، جیسے ان کی لمبائی، چوڑائی اور حجم وغیرہ بیان کرنا۔
التَّنْزِيهُ : بری کرنا اور پاک کرنا۔ جب کہ "التَّنَزُّهُ" کے معنی ہیں : دور ہونا اور نقائص سے اونچا ہونا۔ یہ اصل میں "النَّزْه" سے لیا گيا ہے، جس کے معنی دوری کے ہیں۔
التَّنَطُّعُ (غلو اور تکلف سے کام لینا): کسی چیز کے بارے میں کھود کرید کرنا اور تکلف و بناوٹ سے کام لینا۔ کہا جاتاہے: ”تَنَطَّعَ في الكلامِ“ یعنی اس نے فصاحت ظاہر کرنے کے لیے خوب چرب زبانی سے کام لیا۔ یہ اصلا ’نِطَعَ‘ سے ماخوذ ہے، جو منہ کے اوپری غار یعنی تالو کو کہتے ہیں۔ لیکن بعد میں اس کا استعمال کہیں بھی تعمق سے کام لینے کے لیے ہونے لگا۔ بات چاہے قول کی ہو یا عمل کی۔
عیسیٰ کا اپنی روح و بدن کے ساتھ اللہ کے حکم سے دوسرے آسمان پر چڑھ جانا۔ یہ اللہ کی طرف سے عیسیٰ پر رحمت اور ان کی عزت افزائی تھی ۔
عُروجْ: چڑھنا اوربلند ہونا۔ ’معراج‘ چڑھنے کا آلہ جیسے سیڑھی وغیرہ جس کے ذریعے انسان نیچے سے اوپر چڑھتا ہے۔
کرسی: تخت۔ اس سے مراد وہ چیز ہے، جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ عرب کسی بھی شے کی اصل کو ’کِرس‘ کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق ’عِلْم‘ پر بھی ہوتا ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے علما کو ’الکراسی‘ کہا جاتا ہے۔
اوپر چڑھنے کا آلہ۔ جیسے سیڑھی، جس سے نیچے سے اوپر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اصلا یہ کلمہ اونچا ہونے اور چڑھنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے : "عرج إلى السطح وإلى السماء، يعرج، عروجا ومعرجا" یعنی وہ چھت پر چڑھا۔
ایک ایسا عقیدہ جو اس بات پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود ہی بعینہ مخلوقات کا وجود ہے۔
عُجمہ: واضح اور قابل فہم انداز میں بات کرنے کی صلاحیت سے محروم ہونا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ کلمہ سکوت اور خاموشی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی سے ’اعجمی‘ کا لفظ نکلا ہے، جس کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے، جو قابل فہم اور واضح انداز میں بات نہ کر پاتا ہو، گرچہ وہ عرب ہی کیوں ہو۔
النِّدُّ : مثل اور نظیر۔ ’نِد‘ اس چیز کو کہتے ہیں، جو كسى چیز کے مثل ہو اور اس کے امور میں اس کى مخالفت كرتا ہو، اور ’نِد‘ ہمیشہ مخالف ہی ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی ایک دوسرے سے جدا ہونے اور دور ہونے کے ہیں۔ اسی سے ضد، مخالف اور مثل کو ’نِد‘ کا نام دیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ اپنے مثیل کو دور کردیتا اور اس سے جُدا ہوجاتا ہے۔
وہ صفات جن کی اللہ تعالی نے اپنے آپ سے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبان پر نفی کی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شایانِ شان نہیں ہیں۔
وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ سے متعلق ہیں اور مشیت کے مطابق متجدد ہوتی رہتی ہیں۔
دوستی اور محبت۔ یہ لفظ اصل میں "الخَلَل" سے لیا گیا ہے، جو دو چیزوں کے درمیان کی خالی جگہ کو کہتے ہیں۔ جب کہ "التَّخَلُّلُ" کے معنی ہیں کسی چیز کا دوسری چیز کے بیچ میں داخل ہو جانا۔ محبت کو "خُلَّة" اس لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ یہ دل کے اندر جگہ بنا لیتی ہے۔
عرش: بادشاہ کا تخت، اسی سے کہا جاتا ہے: ”جَلَسَ المَلِكُ على عَرْشِهِ“ کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا۔ عرش کے معنی گھر کی چھت کے بھی آتے ہیں۔ جب کہ اس کے اصل معنی ہیں : بلند اور اونچا ہونا۔
رجا : امید۔ اس کی ضد مایوسی اور نا امیدی ہے۔ "الرَّجاءُ" کا لفظ کسی چیز کے لالچ کے معنی میں بھی آتا ہے۔
الغفران: درگزر کرنا اور معاف کرنا۔ ’غُفران‘ کے معنی گناہ سے چشم پوشی کرنے اور اس پر مواخذہ نہ کرنے کے بھی آتے ہیں۔ ’غُفران‘ کا لفظ دراصل ’غَفر‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: ڈھانکنا، چھپانا اور داخل کرنا۔
کرامت : عزت و شرف۔ یہ "لكَرَم" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی سخاوت اور خیر کی کثرت کے ہیں۔ اس کی ضد بخل ہے۔ یہ لفظ شرافت و نجابت اور فضل کے معنی میں بھی آتا ہے۔
شرعی نصوص کو ان کی اصل سے ہٹانا اور ان کے حقیقی ثابت شدہ معانی اور حقائق سے پھیر دینا یا پھر کائناتی دلائل کی اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا بایں طور کہ یہ کہا جائے کہ یہ اشیاء اللہ کے علاوہ کسی اور کی تخلیق ہیں یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ کوئی اور بھی ان کی تخلیق میں شریک ہے یا پھر وہ ان اشیاء کی تخلیق میں اللہ کا معاون ہے۔
تضرع: تذلل اور خضوع۔ یہ 'الضَّرَع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور کم زوری کے ہیں۔
حق: ثابت۔ اس کی ضد باطل ہے۔ اس کا اطلاق واجب اور لازم پر بھی ہوتا ہے اور اس کا استعمال تاکیدی اور متیقن چیز کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔
وہ صفات جو ازلی و ابدی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم و لازم ہیں، اور ان کا مشیت و اختیار سے کوئی تعلق نہیں۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ ساتھ دلیلِ شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
دلیل : کسی چیز کا نشان۔ دلیل اسے کہتے ہیں جس سے استدلال کیا جائے۔ یہ لفظ دلالت کرنے والے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق دلیل کسی چیز کی طرف رہنمائی کرنے والے اور راستہ بتانے والے کے ہیں۔
طیب کے لغوی معنى لذیذ، حلال اور جائز کے ہیں۔ لفظ "الطَيِّب" "الطِّيبَةِ" سے مشتق ہے، جس کے معنى ہیں خباثت سے سالم اور محفوظ ہونا۔ "الطَّيِّب" کى ضد "الخَبِيثُ" آتی ہے۔ لفظ طیب کا اطلاق نیک، اچھے، آسان، پاکیزہ اور صاف ستھرے وغیرہ پر بھى ہوتا ہے۔
ذوالحجہ کے مہینے کا نواں دن۔
لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے ایسے معنی کی طرف پھیر دینا جو اس سے مختلف ہو۔
کسی شے کا ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا۔
یہ ایک قسم کا جادو ہے جو شوہر کے دل میں بیوی یا بیوی کے دل میں شوہر کی محبت ڈالنے کے لیےاستعمال کیا جاتا ہے۔
پسندیدہ تین صدیوں کے بعد آنے والا ہر وہ شخص جس نے اہل بدعت اور خواہشات کے لوگوں کا راستہ اختیار کیا۔
صفات: يعنی اللہ تعالی کی وہ صفاتِ کمال وجمال اور صفاتِ جلال جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں اور وہ ذاتِ الہی کو دیگر ذوات سے ممتاز کرتی ہیں۔
جس کا لفظ ایک اور معنی متعدد ہو اسے مشترک کہا جاتا ہے۔
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے اور ان کے اثبات میں عقلی دلیل اور فطرت سلیمہ مشترک ہیں۔
اللہ بڑا، پاک اور بلند وبرتر ہے۔
اللہ کو جسم کے ساتھ متصف کرنا (یعنی اللہ کو مجسم بنانا)۔
اللہ کی صفاتِ جمال اور اچھے افعال کا ذکر کرکے اس کی قابل تعریف خوبیوں کو بار بار بیان کرنا اور انہیں شمار کرنا۔
غیرُ اللہ سے مانگنا کہ جس کے دینے پر صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی قدرت رکھتا ہے جیسے مصائب کا ازالہ یا فوائد کا حصول، اسے دعا میں شرک کرنا کہتے ہیں۔
وہ صفات جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے اپنی کتاب میں، یا اپنے رسولﷺ کی زبانی ان کی سنت میں ثابت فرمایا ہے۔
ایسی نسبت جس کو اس کے غیر کو سمجھنے ہی سے سمجھنا ممکن ہے۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کے اثبات میں دلیلِ عقلی کے ساتھ دلیل شرعی بھی شریک ہوتی ہے۔
شہوت آمیز حد سے زیادہ محبت۔
ایسا مرکب لفظ جو قابلِ فہم معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو۔
کسی چیز کو بغیر کسی نمونے یا مثال کے (عدم سے) وجود میں لانا۔
مستقبل میں ایسی ہمیشگی جس کی کوئی انتہا نہ ہو۔
افعال و احکام سے مقصود غایات اور حکمتیں۔
غائب ہونے والا اور اوٹ میں چھپ جانے والا۔
وہ وقت جس کا کوئی محدد اختتام ہو۔
روئے زمین پر موجود سبھی مخلوق کو انام کہتے ہیں۔
بغیر سابقہ نمونے کے چیزوں کو پیدا کرنا اور بنانا۔
بلا استدلال اور غور و فکر کے نفس میں ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی معرفت۔
اللہ تعالی کا نبی ﷺ کی طرف جبرائیل علیہ الصلاۃ والسلام کے واسطے سے وحی کردہ کلام۔
وہ خالی جگہ جس میں کوئی شے نہ ہو۔
کسی شے کا وجود خود اپنے وجود پر موقوف ہونا خواہ کسی واسطہ سے ہو یا بغیر واسطہ کے ہو۔
ایسے الفاظ جن میں صحیح اور غلط دونوں معانی کا احتمال ہو؛ بایں طور کہ تفصیل اور توضیح طلب کرنے کے بعد ہی ان کے معانی کا ادراک ہوسکے۔
ہر وہ شے جس کا عقلی طور پر خارج میں وجود متصور نہ ہو۔
وہ غیر موجود جو کچھ نہ ہو اور اس کا خارج میں کوئی وجود نہ ہو ۔
جس کا خارج میں وجود ممکن نہ ہو، مگر دماغ اس کا اندازہ کر سکتا ہے۔
حقائق کو چھپانے اور دھوکہ دینے کے مقصد سے نقل و عقل سے ثابت شدہ حقائق کی ان کا علم ہونے کے باوجود نفی کرنا۔
ایسا معنی جو متکلم سبحانہ وتعالیٰ کی نفس کے ساتھ قائم ہو، جس میں کوئی حرف اور آواز نہ ہو، نیز اس کا تعلق اس کی مشیت وقدرت سے بھی نہ ہو۔
لفظ کی تفسیر اس کے پورے معنیٰ کے ساتھ کرنا۔
وہ تمام موجودات جوعلم میں آسکتی ہوں اور جن کے بارے میں خبر دی جا سکے۔ (2)
ایسی دو چیزیں جو ایک ہی وقت میں ایک ساتھ جمع نہ ہوسکیں، تاہم ممکن ہے کہ وہ دونوں ہی نہ پائی جائیں، جیسے سیاہی اور سفیدی۔
جو کچھ بھی نھیں ہے اور خارج میں اس کی کوئی حقیقت اور وجود نھیں ہے۔
ہر وہ چیز جو کسی دوسری چیز کے ساتھ قائم ہو اور وہ صرف اسی جگہ پائی جائے جس کے ساتھ وہ قائم ہو۔
جس شخص سے قدرت اور ارادہ کے ساتھ فعل کا صادر ہونا درست ہو۔
لفظ کو کسی تعلق کی بنا پر اس کے معنی موضوع لہ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنا بشرطیکہ اس کے ساتھ قرینہ بھی ہو۔
جس کا معنی ایک اور لفظ مختلف ہو۔
ما ھو (وہ کیا ہے)؟ كے جواب ميں کہی جانے والی بات جو نفس میں اس شے کا تصور پیدا کردے۔
ہر وہ چیر جسے اس کے کُل سے جدا کیا جاسکتا ہو۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بعض مخلوقات کے ساتھ مل کر ایک ہو گیا ہے، لیکن بعض کے ساتھ نہیں.
مخصوص ادات جیسے مَن (کون)، ھَل (کیا)، کَيفَ (کیسے) وغیرہ کے ذریعے کسی ایسی شے کے متعلق معلومات دریافت کرنا جو پہلے سے معلوم نہ تھی۔
کسی لفظ سے ایک یا ایک سے زائد الفاظ اخذ کرنا جب کہ ان کے درمیان لفظ اور معنی میں باہمی نسبت ہو۔
وہ لفظ جس کے ذریعے کسی شے کی پہچان ہو اور وہ اُس پر دلالت کرے۔
دو چیزوں کا کسی معنی میں یکجا ہونا۔
بغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی شے کی ابتدا اور اس کی تخلیق کرنا۔
وہ قضایا اور مقدمات جو انسان کو اس کی عقلی قوت کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں اور اس میں کسی ایسے سبب کا دخل نہیں ہوتا جس سے تصدیق لازم آئے۔
اسماء اور مدلولات کا ایک دوسرے سے مختلف اور متغایر ہونا۔
ذات کا صفات کے ساتھ جڑ جانا ۔ (2)
ایک ہی مسمیٰ (وجود) کے کئی نام ہونا۔
کسی چیز کو کسی ایسی چیز پر مرتب کرنا جو اسی کے مثل دوسری چیز پر مرتب ہے۔
ذہن میں کسی شے کی شکل کا آنا اور اس پر نفی یا اثبات کا حکم لگائے بغیر اس کی ماہیت کے مفہوم کا ادراک ہونا۔
ایہ اعتقاد رکھنا کہ خالق کی صفات مخلوق کی صفات کی طرح ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ مخلوق خالق کی مانند ہے۔
تن اور بدن۔
کسی شے کا نہ ہونے کے بعد وجود میں آنا۔
وہ خلا جو کسی چیز کو سموئے ہوئے اور اسے گھیرے میں لیے ہو۔
کلام کو اس کے وضع کردہ اصلی معنی میں استعمال کرنا۔