قول، عمل اور اعتقاد سے تعلق رکھنے والا دین کا وہ طریقہ اور روشن شاہ راہ، جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گام زن تھے۔
اعتقادی اور عملی طور پر نبیﷺ کی اتباع کرنے والے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے والے۔
ہر وہ قول، فعل، تقریر، صفت یا سیرت جو اللہ کے رسول ﷺ سے منقول ہو، خواہ اس کا تعلق بعثت سے پہلے کی زندگی سے ہو یا بعد کی زندگی سے۔
ہر وہ شخص جو قولی، عملی اور اعتقادی طور پر قرآن و سنت اور عملِ صحابہ پر مضبوطی سے قائم رہے، اور بدعات اور اہلِ بدعت سے کنارہ کشی اختیار کرے۔
متواتر: پے در پے ہونا۔ کہا جاتا ہے : ”تَوَاتَرَتْ الإِبِلُ تَتَوَاتَرُ فَهِيَ مُتَواتِرَةٌ“ یعنی اونٹ یکے بعد دیگرے بغیر کسی انقطاع کے آئے۔ تواتر اصل میں 'وتر' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں فرد۔ ’تواتر‘ کی ضد ’انقطاع‘ ہے۔
خاکساری و فروتنی اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر، بے وقعت اور کم زور ظاہر کرنا۔ تواضع کی ضد تکبر اور اظہارِ برتری ہے۔ دراصل ’تواضع‘ کا لفظ 'وضْع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پستی اور انحطاط کے ہیں۔ اس کے دیگر معانی میں خشوع، سہولت اور نرمی وغیرہ داخل ہیں۔
کرسی: تخت۔ اس سے مراد وہ چیز ہے، جس پر بیٹھا جاتا ہے۔ عرب کسی بھی شے کی اصل کو ’کِرس‘ کہتے ہیں۔ اس کا اطلاق ’عِلْم‘ پر بھی ہوتا ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے علما کو ’الکراسی‘ کہا جاتا ہے۔
اوپر چڑھنے کا آلہ۔ جیسے سیڑھی، جس سے نیچے سے اوپر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اصلا یہ کلمہ اونچا ہونے اور چڑھنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے : "عرج إلى السطح وإلى السماء، يعرج، عروجا ومعرجا" یعنی وہ چھت پر چڑھا۔
قبر کے دونوں جانبوں کا میت کے جسم پر مِل جانا۔
لوگوں میں سنتوں سے آگاہی کو فروغ دے کر اور انہیں بدعات سے خبردار کر کے دینِ اسلام کے نقوش کے احیاء اور اسے اس حالت پر واپس لانے کی کوشش جس پر وہ اسلاف کے اولین دور میں تھا۔
حق کو تھامے رکھنا اور اس کی اتباع کرنا اور اہل حق سے جدا نہ ہونا اگرچہ وہ تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہوں، نیز حکام سے قتال اور ان کے خلاف خروج (بغاوت) کو ترک کر دینا اگرچہ وہ ظلم کرنے والے ہوں۔
ثبات : سکون اور ٹھہراؤ۔ اس کے اصل معنی ہمیشہ رہنے اور ٹھہرنے کے ہیں اور اس کی ضد زوال اور انقطاع ہے۔ اس کا اطلاق استقامت اور ملازمت پر بھی ہوتا ہے۔
التَّنْفِيرُ: ’کسی چیز سے ہٹانا اور دور کرنا۔ اس کے اصل معنی ہیں : کسی کو دور ہونے اور بھاگنے پر اکسانا۔ یہ بغض دلانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور اس کے ضد "التَّبْشِيرُ" یعنی خوش خبری دینا اور "التَّحْبِيبُ" اور پیارا بنانا ہے۔
الاعْتِصامُ: کسی شے کو تھام لینا۔ یہ ”العِصمَة“ سے ماخوذ اور افتعال کے وزن پر ہے۔ یہ لفظ اصلا روکنے اور ساتھ لگے رہنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے: "اعْتَصَمَ باللهِ" یعنی اللہ کے فضل سے وہ گناہ سے باز رہا۔ ”العِصمة“ کے معنی حفاظت کے ہیں۔
’الأُمَّة‘ جماعت۔ ایک قول کی رو سے اس سے مراد لوگوں کی ایک ایسی جماعت ہے، جس کی طرف کوئی رسول بھیجا گیا ہو، چاہے وہ ایمان لائی ہو یا کفر کی راہ اپنائی ہو۔ ’أمت‘ کے لفظ کا اطلاق اس نابغۂ روزگار عالم پر بھی ہوتا ہے، جو اپنے علم میں یکتا ہو۔ اس کے کچھ دوسرے معانی شریعت اور دین وغیرہ کے ہیں۔
ثَوَابِتْ: یہ ثابت کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ ہیں: دائمی اور ٹھہرا ہوا۔ ’ثبُوت‘ کے اصل معنی کسی چیز کا ٹھہرنا اور قائم رہنا ہے۔ جب کہ ’ثوابِتْ‘ ہمیشہ قائم رہنے والی صحیح اشیا کو کہتے ہیں۔
یہ ’’سَلَفَ، يَسْلَفُ، سُلُوفاً‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں گزر جانا اور بیت جانا۔ 'سَلَفُ الرَّجُل' سے مراد آدمی کے گزرے ہوئے آبا و اجداد اور عمر و فضیلت میں فوقیت رکھنے والے رشتے دار ہیں۔
سنت کے معنی ہیں طریقہ اور سیرت، چاہے اچھی ہو یا بری۔ اسی طرح طبیعت، جہت اور قصد و ارادہ۔
بندے کا اللہ کی اجازت کے ساتھ ان لوگوں کی شفاعت کرنا جنھوں نے اس شفاعت کی شرائط کو پورا کردیا ہو اور شفاعت کو روکنے والی اشیاء سے پرہیز کیا ہو۔ (1)
اجماعِ علماء کو توڑ کر اور حق و صواب کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنا۔
کسی کام میں میانہ روی اختیار کرنا اور اس میں نرمی کے ساتھ اس طرح داخل ہونا کہ اس پر مداومت کرنا ممکن ہو۔
مشورہ دینے کی صلاحیت رکھنے والے افراد جو حکمران وغیرہ کو مشورہ دیتے ہیں اور اسے نصیحت کرتے ہیں جیسے علماء اور بڑے لوگ وغیرہ۔
اوصاف میں سے کسی وصف کا معتدل ہونا بایں طور کہ اس کے دونوں اطراف برابر ہوں۔
روزِ قیامت موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور اسے حقیقی طور پر ذبح کردیا جائے گا۔