اس بات کی پختہ تصدیق کرنا کہ جو کچھ کائنات میں ہوتا ہے، سب اللہ کی تقدیر، اس کے علم، تحریر، ارادہ ومشیت اور تخلیق سے ہوتا ہے۔
قضا کا مطلب ہے فیصلہ۔ کہا جاتا ہے : "قَضَى في الأَمْرِ" یعنی اس نے اس مسئلے میں فیصلہ کیا۔ ویسے یہ لفظ پورا اور مکمل کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس کے دیگر معانی میں واجب کرنا، نافذ کرنا اور کسی کام کو مضبوطی سے کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔
التَّفاؤُلُ : کسی اچھی بات سے خوش اور مسرور ہونا۔ اس کی ضد "التَّشاؤُمُ" یعنی فال بد لینا ہے۔
تنجیم، "نَجَّمَ" فعل کا مصدر ہے، جس کے معنی ستاروں کے بارے میں غور و فکر کرنے کے ہیں۔ جب کہ اس کا مادہ طلوع اور ظاہر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
ظلم : جور اور حد کو پار کرنا۔ اس کی ضد عدل ہے۔ اس کے اصل معنی ہیں : کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹاکر کہیں اور رکھ دینا۔ اس کے ایک معنی تعدی کے بھی ہیں۔
عرش: بادشاہ کا تخت، اسی سے کہا جاتا ہے: ”جَلَسَ المَلِكُ على عَرْشِهِ“ کہ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا۔ عرش کے معنی گھر کی چھت کے بھی آتے ہیں۔ جب کہ اس کے اصل معنی ہیں : بلند اور اونچا ہونا۔
بد شگونی۔ اصل میں "الطيرة"، "الطير" سے لیا گیا ہے، جو اڑنے والے جان داروں جیسے کوا وغیرہ کو کہتے ہیں۔
القَدَرُ : قضا اور فیصلہ۔ یہ "القَدْر" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں : کسی چیز کے پہنچنے کی جگہ اور انتہا۔ یہ تقدیر اور تدبیر کے معنی میں بھی آتا ہے۔
الخِذلان: مدد اور اعانت چھوڑ دینا۔ کہا جاتا ہے: ”خَذَلَهُ صَدِيقُهُ“ یعنی اس کے دوست نے اس کی نصرت و اعانب چھوڑ دی اور اس کی مدد نہيں کی۔ "خِذْلاَن" کے اصل معنی ہیں: کسی شے کو چھوڑ دینا۔ یہ حوصلہ پست کرنے اور کم زور کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
وہ بات جسے لوگوں کا دل درست تسلیم کرے۔ یہ برحق فیصلہ کرنے کے لیے بھی آتا ہے اور اس کی ضد "الجور" یعنی ظلم ہے۔ اس کا اطلاق تمام معاملوں میں میانہ روی کے لیے بھی آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے اچھائی کی توقع نیز اس کی رحمت، عفو ودرگزر کی امید رکھنا۔
وہ اعمال و اقوال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں۔
جنتیوں کا جنت کی نعمتوں میں اور جہنمیوں کا جہنم کے دائمی عذاب میں رہنا جو کبھی منقطع نہ ہوگا ۔
جسموں کےاندر ثابت وقائم وہ خصوصیات اور قوتیں جو ان میں حلول کئے ہوتی ہیں۔
وہ چیز جس سے بحکمِ تعالیٰ قیامت تک کی ہر شے کی تقدیر لکھی گئی ہے۔
ایسا علم جس میں شرعی دلائل کی طرف رجوع کئے بغیر ایمانی عقائد پر عقلی دلائل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔
اللہ تعالی کی وہ صفات جن کا ذکر شریعت میں آیا ہے اور ان کے اثبات میں عقلی دلیل اور فطرت سلیمہ مشترک ہیں۔
نفس کی کمزوری اور دل کا خوف جو انسان کو بوقتِ ابتلا و آزمائش غم میں ڈال دے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اشیاء اللہ کے علم کے بغیر اچانک وقوع پذیر ہوجاتی ہیں یا پھر اللہ کے علم کے برخلاف واقع ہوجاتی ہیں۔ (2)
اللہ کو جسم کے ساتھ متصف کرنا (یعنی اللہ کو مجسم بنانا)۔
فاعل کو اس کی رضامندی اور مشیت کے بغیر کام کرنے پر مجبور کرنا۔ یا اس سے مراد حقیقی طور پر بندے سے فعل کی نفی کرکے اسے رب تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا۔
افعال و احکام سے مقصود غایات اور حکمتیں۔
سرکش اور بُرا جِنْ جس میں مکاری اور خباثت ہو۔
جو کسی شے کو وجود دیتی ہے یا جو کسی دوسری شے کے حصول کا سبب بنتی ہے۔
فاعل سے کسی فعل کے نتیجے میں دوسرا فعل صادر ہونا، جیسے ہاتھ کی حرکت سے چابی کا حرکت کرنا ۔
وہ خالی جگہ جس میں کوئی شے نہ ہو۔
جو کچھ بھی نھیں ہے اور خارج میں اس کی کوئی حقیقت اور وجود نھیں ہے۔
مکرم فرشتے جنہیں اللہ نے بندوں کے اچھے برے اعمال کو محفوظ کرنے اور انہیں شمار کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے ۔
وہ فرشتے جو انسان کے آگے پیچھے سے باری باری اس کی نگہبانی کرتے ہیں؛ لیکن جب اس کی تقدیر کافیصلہ آن پہنچتا ہے، تو وہ اُس سے پرے ہٹ جاتے ہیں۔
وہ شے جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرتی ہو اور بذاتِ خود اس کا کوئی وجود نہ ہو بلکہ اس کا وجود کسی اور کی وجہ سے ہو ۔
دل اور اعضاء وجوارح کا حق کو تسلیم کرنے، پسند کرنے اور مان لینے سے باز رہنا۔
جو چیز بھی انسان اپنی مرضی سے نفع کے حصول یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اسے کسْب کہا جاتا ہے۔
اسماء اور مدلولات کا ایک دوسرے سے مختلف اور متغایر ہونا۔