ابو حمزہ یا ابو ثمامہ انس بن مالک بن نضر بن ضمضم انصاری نجاری خزرجی بصری ایک بڑے پایے کے صحابی ہیں۔ سنہ 10 میں پیدا ہوئے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے خادم تھے، بڑی تعداد میں حدیث روایت کی، بصرہ میں سب سے آخر میں وفات پانے والے صحابی ہیں۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا : "اے اللہ! اسے بہت زیادہ مال و اولاد عطا کر اور جنت میں داخل ہونے کی سعادت نصیب فرما۔" اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ جنگ بدر میں آپ کے خادم کی حیثیت سے شریک ہوئے، جب ابوبکر -رضی اللہ عنہ- خلیفہ منتخب ہوئے تو انھوں نے انس بن مالک -رضی اللہ عنہ- کے پاس یہ خبر بھیجی کہ ان کو زکوۃ کا مال جمع کرنے کے لیے بحرین بھیجا جائے گا، اسی درمیان عمر -رضی اللہ عنہ- ان کے پاس آئے اور انھوں نے ان سے مشورہ کیا، تو فرمایا کہ ان کو بھیج دیجیےوہ ایک دانش مند اور لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے انسان ہیں، چنانچہ ان کو بھیج دیا گیا، سنہ 93 ميں وفات پائی۔
ابو محذورہ اوس بن معیر قرشی جمحی ایک بڑے صحابی ہیں، ان کے اور ان کے والد کے نام کے بارے میں اختلاف ہے، غزوۂ حنین کے بعد مسلمان ہوئے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کی آواز کو خوب صورت بتایا اور ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، تو وہ مسلمان ہو گئے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے مجھ کو اذان خود سکھائی، فرمایا : "کہو : اللہ اکبر، اللہ اکبر...الخ" جب انھوں نے اذان سیکھ لی، تو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو مکہ میں اپنا مؤذن مقرر کر دیا، ان سے کئی حدیثیں مروی ہيں، سنہ 59 میں وفات پائی۔
صبر و شکیب کے پیکر نبی ایوب -علیہ السلام- موسی -علیہ السلام- سے پہلے کے ایک نبی تھے، وہ مشرقی فلسطین میں واقع عوص نامی ایک جگہ یا حوران میں رہتے تھے، عرب مؤرخین کے نزدیک وہ ابراہیم -علیہ السلام- کی اولاد سے تھے، دونوں کے بیچ چار پشتوں کا فاصلہ تھا، اللہ نے ان کو اس طور پر آزمایا کہ ان کی اولاد چلی گئی، دولت ختم ہو گئی اور اٹھارہ سالوں تک بیماری میں مبتلا رہے۔ لیکن انھوں نےصبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور صبر کے معاملے میں ان کی مثال دی جانے لگی، آخر میں اللہ نے ان کی پریشانیاں دور کر دی۔
ابو عمارہ، کچھ لوگوں کے مطابق ابو عمرو اور کچھ لوگوں کے مطابق ابو طفیل برا بن عازب بن حارث خزرجی ایک بڑے صحابی ہیں۔ انھوں نے خود اپنے بارے میں کہا ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے مجھ کو اور عبد اللہ بن عمر کو چھوٹا سمجھ کر واپس کر دیا، لہذا وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہو سکے،ان سے مروی ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ چودہ اور ایک روایت کے مطابق پندرہ غزوات میں شرکت کی ہے، انھوں نے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- سے بڑی تعداد میں حدیثیں روایت کی ہیں، اسی طرح خود اپنے والد اور ابو بکر -رضی اللہ عنہما- وغیرہ دوسرے بڑے صحابہ سے بھی حدیثیں روایت کی ہیں، سنہ 71 میں وفات پائی۔
ثابت بن ضحاک بن خلیفہ بن ثعلبہ انصاری اشہلی، بیعت رضوان میں شامل رہے، خندق کے دن اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پیچھے سوار تھے، حمراء الاسد کی جانب کوچ کرتے وقت آپ کی رہنمائی کی تھی، درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں میں شامل رہے،سنہ 45 میں وفات پائی۔
جویریہ بنت حارث بن ابوضرار خزاعیہ مصطلقیہ ام المؤمنین ہیں،ان سے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے سنہ 5 یا 6 میں نکاح کیا، ان کا اصل نام برہ تھا، جسے آپ نے بدل دیا، سنہ 56 میں وفات پائی۔
حسین بن علی بن ابو طالب ہاشمی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے نواسے اور فاطمہ زہرا کے بیٹے، کنیت ابو عبداللہ ہے،مدینے کے اندر سنہ 4 میں پیدا ہوئے، ایک حدیث میں ہے : "حسن اور حسین جنت جانے والے جوانوں کے سردار ہیں۔" اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے گھر میں ان کی پرورش ہوئی، یزید بن معاویہ کے عہد سنہ 61 کو شہید کر دیے گئے۔
رافع بن خدیج بن رافع بن عدی بن انصاری اوسی ایک بڑے صحابی ہیں، غزوۂ بدر کے موقعے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے لائے گئے تو ان کو چھوٹا قرار دے کر جنگ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی، جب کہ احد کے دن اجازت دے دی، اس طرح وہ احد اور اس کے بعد کی جنگوں میں شامل رہے، انھوں نے حدیث بھی روایت کی ہے، سنہ 74 میں وفات پائی۔
ابو عمرو اویس بن عامر بن مالک قرنی ایک بڑے تابعی ہیں، بزرگ تابعین میں ان کا شمار تھا، بڑے پرہیزگار اور عبادت گزار انسان تھے،اصلا ان کا تعلق یمن سے تھا، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کا دور پایا، لیکن آپ کو دیکھنے کی سعادت حاصل نہيں کر سکے، عمر -رضی اللہ عنہ- کے دور میں آئے اور اس کے بعد کوفہ میں سکونت اختیار کر لی، یہ بات ثابت ہے کہ وہ تابعین کی جماعت میں سب سے بہتر انسان تھے، اسیر بن جابر کہتے ہیں : عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- کے پاس جب یمن سے فوجی جتھے جہاد میں مسلمان فوجیوں کا ساتھ دینے کے لیے آتے، تو ان سے پوچھتے کہ کیا تمھارے بیچ اویس بن عامر ہیں؟ یہاں تک کہ اویس کے پاس آئے اور پوچھا کہ کیا آپ اویس بن عامر ہیں؟ جواب دیا کہ ہاں! پوچھا کہ کیا آپ کا تعلق قرن قبیلے کی مراد شاخ سے ہے؟ جواب دیا کہ ہاں! پوچھا کہ کیا آپ کے جسم پر سفید داغ تھے، جو ایک درہم کے برابر چھوڑ کے ٹھیک ہو گئے ہیں؟ جواب دیا کہ ہاں! تب کہا کہ میں نے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو کہتے ہوئے سنا ہے : "تمھارے پاس اویس بن عامر یمن سے آنے والے فوجی جتھوں کے ساتھ آئے گا،اس کا تعلق قرن قبیلے کی مراد شاخ سے ہوگا، اس کے جسم پر سفید داغ رہے ہوں گےجو ٹھیک ہو گئے ہوں گے، لیکن ایک درہم کے برابر جگہ بچی ہوئی ہوگی، اگر اس سے اپنے لیے استغفار کرا سکو، تو کرانا۔" لہذا آپ میرے لیے استغفار کیجیے، چنانچہ انھوں نے عمر -رضی اللہ عنہ- کے لیے استغفار کیا، اس کے بعد عمر -رضی اللہ عنہ- نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہيں؟ انھوں نے جواب دیا کہ کوفہ، عمر -رضی اللہ عنہ- نے پوچھا کہ کیا میں وہاں کے گورنر کے نام پر آپ کے لیے خط لکھ دوں؟ انھوں نے جواب دیا کہ مجھے عام لوگوں میں رہنا زیادہ پسند ہے، آئندہ سال ان کی قوم کا ایک معزز شخص حج کے ارادے سے آیا، وہ عمر -رضی اللہ عنہ- سے ملا، تو انھوں نے اس سے اویس کے بارے میں پوچھا،چنانچہ اس نے جواب دیا کہ میں ان کو ایک بوسیدہ گھر میں اور بہت کم سامانوں کے ساتھ چھوڑ آیا ہوں، یہ سننے کے بعد عمر -رضی اللہ عنہ- نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کو کہتے ہوئے سنا ہے : "تمھارے پاس اویس بن عامر یمن سے آنے والے فوجی جتھوں کے ساتھ آئے گا، اس کا تعلق قرن قبیلے کی مراد شاخ سے ہوگا، اس کے جسم پر سفید داغ رہے ہوں گے، جو ٹھیک ہو گئے ہوں گے، لیکن ایک درہم کے برابر جگہ بچی ہوئی ہوگی۔ اس کی ماں ہوگی، جس کے ساتھ وہ اچھا سلوک کرے گا، اگر وہ اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ اس کی قسم کی لاج رکھ لے۔ اگر اس سے اپنے لیے استغفار کرا سکو تو کرانا۔" لہذا وہ شخص اویس کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ میرے لیے استغفار کریں، تو تم ابھی ابھی ایک نیک سفر سے آئے ہو، لہذا تم میرے لیے استغفار کرو۔ اس شخص نے پھر کہا کہ آپ میرے لیے استغفار کریں، تو انھوں نے پھر جواب دیا کہ تم ابھی ابھی ایک مبارک سفر سے آئے ہو، لہذا تم میرے لیے استغفار کرو۔ اس اصرار کے بعد انھوں نے پوچھا کہ کیا تم عمر -رضی اللہ عنہ- سے مل کر آئے ہو؟ جواب دیا کہ ہاں! چنانچہ ان کے لیے استغفار کیا، اس واقعے کے بعد لوگ ان کی عظمت کو سمجھ گئے تو وہ کہیں چلے گئے، اسیر کہتے ہیں : ان کے پاس کپڑے کے نام پر بس ایک چادر تھی۔ چنانچہ جب ان کو کوئی انسان دیکھتا، تو کہتا : اویس کو یہ چادر کہاں سے ملی؟ سنہ 37 میں وفات پائی۔
رویفع بن ثابت بن سکن کا تعلق بنو مالک بن نجار سے تھا۔ ایک بڑے صحابی تھے، مصر میں رہنے لگے تھے، معاویہ -رضی اللہ عنہ- نے ان کو سنہ 44 میں طرابلس کا گورنر بنایا تھا، جس کے بعد انھوں افریقہ پر لشکر کشی کی، انھوں نے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے حدیث بھی روایت کی ہے، برقہ میں سنہ 56 میں وفات پائی۔ ان دنوں وہ وہاں کے امیر تھے۔
زید بن خالد ایک بڑے صحابی ہیں، کنیت ابو زرعہ، ابو عبدالرحمن یا ابو طلحہ تھی، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے حدیث روایت کی ہے،صلح حدیبیہ میں شریک رہے، فتح مکہ کے دن ان کے ہاتھ میں قبیلہ جہینہ کا جھنڈا تھا، ان سے مروی حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے، سنہ 78 میں وفات پائی۔
سعد بن مالک بن سنان انصاری خزرجی خدری۔ اپنی کنیت ہی سے مشہور ہیں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے بڑی تعداد میں حدیث روایت کرنے والے لوگوں میں شامل ہیں، ان کی سب سے پہلی جنگ خندق تھی۔ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ 12 غزوات میں شریک رہے، سنہ 74 میں وفات پائی۔
ابوداؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر ازدی سجستانی، صاحب سنن ایک مشہور امام ہیں، امام ابوداؤد امام ترمذی کے استاذ اور امام احمد کے شاگرد ہیں، سنہ 202ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کی تصنیفات میں 'المراسیل' اور 'القدر' وغیرہ شامل ہیں، سنہ 275ھ میں وفات پائی۔
برا بن مالک بن نضر بن ضمضم ایک بڑے صحابی ہیں، بڑی فضیلتوں کے مالک اور بہادر انسان تھے۔ انھوں نے آمنے سامنے کی لڑائی میں سو مشرکوں کو قتل کیا تھا، جب کہ ان لوگوں کی تعداد اس سے الگ ہے، جن کے قتل میں ان کے ساتھ دوسرے لوگ شریک رہے، مسلمانوں نے جنگ یمامہ میں مشرکوں کا پیچھا کرتے ہوئے ان کو ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، اس باغ میں اللہ کا دشمن مسیلمہ بھی موجود تھا،اس موقعے پر براء -رضی اللہ عنہ- نے کہا: مسلمانو! مجھ کو باغ کے اندر ڈال دوو چنانچہ ان کو اٹھایا گیا، جب دیوار پر چڑھ گئے، تو حملہ کر دیا اور مشرکوں سے لڑتے ہوئے باغ کو مسلمانوں کے لیے کھول دیا، چنانچہ مسلمان اندر داخل ہوگئے اور مسیلمہ کو قتل کر دیا۔ براءکی وفات سنہ 20 میں ہوئی۔
بریدہ بن حصیب بن عبداللہ ایک بڑے صحابی ہیں، ابن السکن کہتے ہيں : بریدہ اس وقت مسلمان ہوئے تھے جب اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- ہجرت کے دوران غمیم نامی جگہ میں ان کے پاس سے گزرے تھے، بدر اور احد جیسی جنگیں ہونے تک وہ وہیں رہے اور اس کے بعد مدینہ آئے، جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے بدر سے لوٹنے کے بعد مسلمان ہوئے، جب بصرہ فتح ہوا تو وہیں پر سکونت اختیار کر لی، سنہ 63 میں وفات پائی۔
بلال بن رباح حبشی اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم- کے مؤذن تھے،ان کو بلال بن حمامہ بھی کہا جاتا ہے،دراصل حمامہ ان کی ماں کا نام ہے،جب مشرکوں نے ان کو توحید پر قائم رہنے کی وجہ سے ستانا شروع کر دیا تو ابو بکر -رضی اللہ عنہ- نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا، اس کے بعد وہ ہمیشہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ رہے، آپ کے لیے اذان دیتے رہے اور تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ رہے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے آپ کے اور ابوعبیدہ بن جراح کے بیچ مواخات کرائی تھی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے بعد جہاد کے لیے نکل پڑے اور بالآخر شام میں سنہ 20 میں وفات پائی۔
تماضر بنت عمرو بن حارث بن شرید ریاحیہ سلمیہ، لقب خنسا تھا اور اپنے اسی لقب سے مشہور ہوئیں، نجد سے تعلق رکھنے والی سب سے مشہور عرب شاعرہ تھیں، عمر کا زیادہ تر حصہ جاہلی دور میں گزارا، اپنے دونوں بھائیوں صخر اور معاویہ کے مرثیہ کی وجہ سے مشہور ہوئيں۔ اسلام کا زمانہ ملا تو مسلمان ہو گئیں،اپنی قوم بنو سلیم کے ساتھ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس پہنچیں، ان کے چار بیٹے تھے، جو سنہ 16 کو جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے،اس موقعے پر وہ اپنے بیٹوں کو جنگ پر مسلسل ابھارتی رہیں، یہاں تک کہ جب چاروں نے جام شہادت نوش کر لیا تو انھوں نے کہا : ساری تعریف اس اللہ کی ہے جس نے مجھے چاروں بیٹوں کی شہادت کی عزت بخشی، سنہ 24 میں ان کی وفات ہوئی۔
تمیم بن اوس بن حارثہ، ایک قول کے مطابق خارجہ بن سود اور ایک قول کے مطابق سواد بن جذیمہ بن ذراع بن عدی بن دار، ابو رقیہ داری، ایک بڑے صحابی ہیں، نصرانی تھے، مدینہ آئے اور مسلمان ہو گئے، انھوں نے ہی اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو جساسہ اور دجال کا قصہ سنایا اور اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے اسے ان کے حوالے سے منبر میں سنایا، اسے ان کے مناقب میں شمار کیا گیا، بڑے تہجد گزار تھے، ایک دن تہجد میں کھڑے ہوئے اور صبح تک ایک ہی آیت دوہراتے رہے، آیت یہ تھی : {أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ} [الجاثية: 21](کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے جنھوں نے گناہ کیے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کر دیں گے، جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ہیں کہ ان کا جینا اور مرنا برابر ہو جائے؟ وہ برا فصلہ کر رہے ہیں۔) سنہ 40 میں وفات پائی۔
سہل بن سعد بن مالک انصاری ساعدی ایک بڑے اور مشہور صحابی ہیں، کہا جاتا ہے کہ ان کا نام حزن تھا، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے اسے بدل دیا، زہری کہتے ہیں : اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے انتقال کے وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی، ایک قول کے مطابق وہ مدینے میں سب سے آخر میں فوت ہونے والے صحابی ہیں، ان کی وفات سنہ 91ھ میں ہوئی۔
شداد بن اوس بن ثابت بن منذر بن حرام انصاری نجاری خزرجی،کنیت ابو یعلی اور ابو عبد الرحمن ہے، ایک بڑے صحابی ہیں، بڑے علم و فضل کے مالک تھے، بیت المقدس میں رہنے لگے تھے، بڑے عبادت گزار اور محنتی انسان تھے، علم اور حلم دونوں سے نوازے گئے تھے، سنہ 58ھ میں وفات پائی۔
جابر بر عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری سلمی ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- سے بڑی تعداد میں حدیث روایت کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، خود ان سے بھی بہت سے صحابہ نے حدیث روایت کی ہے، ان کے ساتھ ساتھ ان کے والد بھی صحابی ہیں، صحیح حدیث میں ہے کہ وہ عقبہ کے دن موجود تھے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- 21 غزوات میں بہ نفس نفیس شریک رہے، جن میں سے 17 غزوات میں وہ بھی موجود تھے، سنہ 70 کے بعد وفات پائی، لمبی عمر پائی تھی، وفات سے پہلے وصیت کر گئے تھے کہ ان کی نماز جنازہ حجاج بن یوسف نہ پڑھائے۔
جبیر بن مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف قرشی نوفلی ایک بڑے صحابی ہیں،اکابرین قریش اور نسب کے جانکار لوگوں میں شمار ہوتے تھے، بدر کے قیدیوں کو چھڑانے کے سلسلے میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس آئے اور آپ کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا، خود ان کے بیان کے مطابق یہیں سے ان کے دل میں ایمان کی پہلی کرن داخل ہوئی،اس موقع پر اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان سے فرمایا تھا : "اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتے اور ان لوگوں کے بارے میں مجھ سے بات کرتے، تو میں ان کو ان کے حوالے کر دیتا۔" (صحیح بخاری) جبیر بن مطعم حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان مسلمان ہوئے، کچھ لوگوں کے مطابق فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے، سنہ 59 میں معاویہ -رضی اللہ عنہ- کی خلافت کے دور میں وفات پائی۔
حباب بن منذر جن جموح انصاری خزرجی سلمی ایک بڑے صحابی ہیں، بڑے بہادر انسان تھے۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ ان کو صاحب رائے کہا جاتا تھا۔ ثعالبی کہتے ہیں : "بدر کے دن انھوں نے مشورہ دیا تھا اور اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے مشورہ پر عمل کیا تھا، تو جبریل نے آسمان سے اتر کر کہا تھا کہ حباب کی رائے بالکل درست ہے، جاہلی دور میں بھی ان کے کچھ مشورے بہت مشہور ہوئے تھے۔" 50 سال سے زیادہ عمر پائی، سنہ 20 کے آس پاس عمر -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت می ان کی وفات ہوئی۔
ابوذر غفاری کا مشہور نام جندب بن جنادہ ہے، ایک بڑے صحابی ہیں،ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے،کچھ لوگوں کے مطابق وہ اسلام قبول کرنے والے چوتھے اور کچھ لوگوں کے مطابق پانچویں شخص تھے،انھوں نے ہی پہلی بار اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی خدمت میں اسلامی سلام پیش کیا تھا، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- مکے میں تھے کہ آپ کے پاس آئے، آپ کی بات سنی اور فورا مسلمان ہو گئے، چنانچہ آپ نے ان سے کہا : "تم اپنی قوم کے پاس واپس جاؤ اور ان کو میری بات اس وقت تک بتاتے رہو جب تک میرا حکم نہ مل جائے۔" لیکن انھوں نے جواب دیا : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان لوگوں کے بیچ اپنے اسلام کا کھلم کھلا اعلان کرکے ہی دم لوں گا۔ چنانچہ وہاں سے نکلے، مسجد حرام پہنچے اور طاقت بھر اونچی آواز میں کہا : میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد -صلی اللہ علیہ و سلم- اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، یہ سنتے ہی لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور اتنا مارا کہ ان کو زمین پر لٹا دیا،ابوذر غفاری -رضی اللہ عنہ- جب موجود ہوتے تو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- ان سے بات کرنے میں پہل کرتے اور جب موجود نہ ہوتے تو ان کو تلاش کرتے تھے، سنہ 32 میں وفات پائی۔
صعب بن جثامہ بن قیس بن ربیعہ بن عبداللہ بن یعمر لیثی قریش کے حلیف تھے،ودان میں رہتے تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے اور عوف بن مالک کے درمیان مؤاخاۃ کرائی تھی، سنہ 25 کے آس پاس وفات پائی۔
صالح علیہ السلام ایک عربی نبی تھے،بنو ثمود سے تعلق تھا، ثمود کو اصحاب الحجر کہا جاتا تھا، حجر سے مراد ان کا وہ علاقہ ہے جسے آج صالح -علیہ السلام- کی طرف نسبت کرتے ہوئے مدائن صالح کے نام سے جانا جاتا ہے، صالح نوح اور عاد کے بعد آئے تھے، ان کو ان کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا تھا، لیکن جب لوگوں نے ان کوجھٹلایا تو ایک تیز آواز کا شکار ہوکر ہلاک ہو گئے۔
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی بن اخطب کا تعلق بنو نضیر سے تھا، لاو بن یعقوب کی نسل سے تھیں، بعد میں موسی علیہ السلام کے بھائی ہارون بن عمران سے ان کا سلسلۂ نسب چلا تھا، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیوی تھیں۔ سنہ 50ھ کو فوت ہوئیں۔
حاطب بن ابو بلتعہ بن عمرو بن عمیر بن سلمہ لخمی بنی اسد بن عبدالعزی کے حلیف تھے۔ وہ جنگ بدر میں شریک تھے، اس بات میں سب کا اتفاق ہے،حدیث میں ہے کہ ابو بلتعہ کے ایک غلام نے اللہ کے رسول کے پاس آکر ان کی شکایت کی اور کہا: اے اللہ کے رسول! حاطب ضرور جہنم میں جائے گا، آپ نے اس کا جواب دیا : "ایسا نہيں ہو سکتا۔ کیونکہ وہ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھا۔" حاطب کہتے ہیں : اللہ کی قسم! جب سے میں مسلمان ہوا مجھے اللہ کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا،دراصل بات یہ تھی کہ میں ایک وطن چھوڑ کر آیا ہوا انسان تھا اور مکہ میں میرے بیٹے اور بھائی رہ گئے تھے، یہ بات انھوں نے مکہ والوں کے نام خط لکھنے پر معذرت کرتے ہوئے کہی تھی، جس کے ذریعے انھوں نے مکہ والوں کو یہ اطلاع فراہم کرنے کی کوشش کی تھی کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- ان پر حملہ کرنے والے ہیں، اسی پس منظر میں قرآن کی یہ آیت اتری تھی : "اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راه میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیده طور پربھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وه بھی جو تم نے ﻇاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وه یقیناً راه راست سے بہک جائے گا۔" سنہ 30 میں وفات پائی۔
حذیفہ بن یمان عبسی کے والد سے کسی کا خون ہو گیا تھا، لہذا مدینہ بھاگ کر چلے آئے اور بنی عبد الاشہل کے حلیف بن گئے، چونکہ وہ یمنی الاصل لوگوں کے حلیف بن گئے تھے، اس لیے ان کی قوم کے لوگوں نے ان کو یمان کا نام دے دیا، انھوں نے حذیفہ کی ماں سے شادی کی، جس سے ان کو مدینے میں اولاد بھی ہوئی،حذیفہ اور ان کے والد دونوں مسلمان ہو گئے تھے، حذیفہ خندق اور اس کے بعد کی جنگوں میں شریک رہے، عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کو مدائن کا عامل بنایا تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے وہیں بود و باش اختیار کر لی، عثمان -رضی اللہ عنہ- کے قتل اور علی -رضی اللہ عنہ- سے بیعت کے چالیس دن بعد وفات پائی، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ ابو درداء -رضی اللہ عنہ- نے علقمہ سے پوچھا : کیا تمھارے پاس اس راز کو جاننے والا نہیں ہے جسے ان کے علاوہ کوئی نہيں جانتا؟ ان کی مراد حذیفہ سے تھی، اسی طرح صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہی ہے کہ عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نےحذیفہ -رضی اللہ عنہ- سے فتنے کے بارے میں پوچھا، حذیفہ عراق کی فتوحات میں شریک رہے، سنہ 36 کو وفات پائی۔
ابو محد حسن بن علی بن ابو طالب ہاشمی، قرشی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے نواسے، سنہ 3 میں پیدا ہوئے، پانچويں اور آخری خلیفۂ راشد ہیں، مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیٹی فاطمہ زہرا ہیں، آپ فاطمہ -رضی اللہ عنہا- کی پہلی اولاد ہيں، بڑے عقل و دانش کے مالک، بردبار اور خیر پسند انسان تھے، بڑے خوب گو اور خوب رو انسان تھے، پیدل چل کر 20 حج کیے۔ سنہ 41 میں خلافت سے دست کش ہو گئے اور اسے معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے حوالے کر دیا، مسلمانوں کے اندر دوبارہ اتحاد کی فضا قائم ہونے کی وجہ سے اس سال کو عام الجماعۃ کہا گیا،اس کے بعد حسن -رضی اللہ عنہ- مدینہ چلے گئے اور وفات تک وہیں رہے۔ ایک قول کے مطابق ان کی خلافت کھانے میں زہر ڈال دیے جانے سے ہوئی، مدت خلافت 6 مہینے 5 دن رہی۔ سنہ 50 میں وفات پائی۔
عباد بن بشر بن وقش اشہلی ایک بڑے صحابی ہیں، یہ کعب بن اشرف کا قتل کرنے والے لوگوں میں شامل تھے، ایک صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی آواز سنی تو فرمایا : "اے اللہ! عباد پر رحم فرما۔" سنہ 12ھ کو فوت ہوئے۔
ابوالولید عبادہ بن صامت بن قیس انصاری خزرجی ایک بڑے صحابی ہیں،عقبہ کی رات جن لوگوں کو نقیب مقرر کیا تھا ان میں سے ایک عبادہ بھی تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے اور ابو مرثد غنوی کے درمیان مؤاخاۃ کرائی تھی، بدر کے بعد کی تمام جنگوں میں شامل ہوئے،سنہ 34ھ میں فوت ہوئے۔
ابوالفرج عبدالرحمن بن احمد بن رجب سلامی بغدادی اور پھر دمشقی محدث، حنبلی فقیہ اور مضبوط و مختلف علوم و فنون کے ماہر عالم تھے، سلف کے اقوال سے خوب واقف تھے۔ "تقرير القواعد وتحرير الفوائد"، "ذيل طبقات الحنابلة"، "فتح الباري في شرح صحيح البخاري"، "جامع العلوم و الحكم" جو کہ اربعین نووی کی شرح ہے، اور "شرح جامع الترمذي" وغیرہ ان کی اہم تصنیفات ہیں۔ 795ھ کو فوت ہوئے۔
ابو سعید حسن بن یسار بصری ایک فقیہ، ثقہ اور بڑی تعداد میں حدیث روایت کرنے والے تابعی ہیں۔ سنہ 21 میں مدینے کے اندر پیدا ہوئے، بصرہ والوں کے امام اور اپنے زمانے میں اس امت کے بحر زخار مانے جاتے تھے، ایک فقیہ، فصیح، بہادر اور زاہد عالم تھے، بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، لوگوں کے دلوں میں ان کی بڑی ہیبت تھی، یہی وجہ ہے کہ حکام کے یہاں جاتے، ان کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے اور اس معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو پرواہ میں نہ لاتے، کئی موقعوں پر حجاج بن یوسف سے ٹکر لے لی، لیکن اس کے باجود اس کی اذیت رسانی سے محفوظ رہے، عمر بن عبدالعزیز نے جب خلافت سنبھالی، تو ان کو لکھ کر بھیجا : میں مسند خلافت کو سنبھالنے کی آزمائش میں مبتلا ہو گیا ہوں، لہذا میرے کچھ معاونین دیکھیں جو اس کام میں میری مدد کریں، اس کے جواب میں حسن بصری نے لکھ کر بھیجا : آپ کو دنیادار لوگ نہيں چاہیے اور آخرت والے لوگ آپ کے پاس جانا نہيں چاہیں گے، سنہ 110 میں وفات پائی۔
ام حرام بنت ملحان بنت خالد بن زید بن حرام بن جندب انصاریہ، انس -رضی اللہ عنہ- نے اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان سے روایت کیا ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے گھر میں قیلولہ کیا، جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے، فرمایا : "میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ لائے گئے جو بحر اخضر میں ایسے سوار تھے، جیسے تخت شاہی پر بادشاہ ہوں۔" ام حرام کا کہنا ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجیے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل کرے،اس کے بعد پھر آپ سو گئے۔ بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! ہنسنے کی وجہ کیا ہے؟ تو فرمایا : "میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگ لائے گئے، جو بحر اخضر میں ایسے سوار تھے، جیسے تخت شاہی پر بادشاہ ہوں۔" میں نے کہا : اے اللہ کے رسول! دعا کر دیجیے کہ مجھے ان لوگوں میں سے بنائے تو فرمایا : "تم پہلے گروہ میں شامل ہو۔" راوی کہتے ہیں : چنانچہ عبادہ بن صامت نے ان سے شادی کی اور ان کو اپنے ساتھ جنگ کے لیے لے گئے، جب سمندر کے پار پہنچے تو ام حرام ایک جانور پر سوار ہوئیں جس نے ان کو گرا دیا اور اس طرح سنہ 27 میں ان کا انتقال ہو گیا۔
حسان بن ثابت بن منذر بن حرام انصاری خزرجی نجاری اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے شاعر تھے، ان کی کنیت ابو الولید تھی، یہی سب سے مشہور ہے،ابو المضرب، ابو الحسام اور ابو عبدالرحمن بھی ان کی کنیت تھی، صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ سلم- حسان بن ثابت کے لیے مسجد میں منبر رکھتے جس پر کھڑے ہوکر وہ ان لوگوں کی ہجو کرتے تھے، جو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی ہجو کیا کرتے تھے،اس پس منظر میں اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "روح القدس اس وقت تک حسان کے ساتھ ہیں جب تک وہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کا دفاع کرتے رہیں۔" ابن سعد کہتے ہیں : دور جاہلیت میں 60 سال کی زندگی گزاری اور دور اسلام میں 60 سال کی زندگی گزاری۔ 120 سال کی عمر میں سنہ 54 میں وفات پائی۔
عبدالرحمن بن ابو حاتم محمد بن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی، کنیت ابو عبداللہ ہے، محدث اور حافظ حدیث تھے، سنہ 240 کو پیدا ہوئے، بڑے حفاظ حدیث میں شمار ہوتے تھے، ان کا گھر ری شہر کی حنظلہ گلی میں تھا، انھوں نے 'الجرح والتعدیل'، 'التفسیر' اور 'الرد علی الجہمیۃ' جیسی کئی تصنیفات چھوڑیں، سنہ 327ھ میں فوت ہوئیں۔
اروی بنت حارث بن عبدالمطلب قرشی اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی چچیری بہن اور ابو سفیان بن حارث کی بہن تھیں، اپنی فصاحت کی وجہ سے مشہور تھیں،ابن سعد نے ان کو صحابیات میں ذکر کیا ہے، سنہ 50ھ کے آس پاس وفات پائی۔
اشعث بن قیس بن معدی کرب بن معاویہ کندی وفود کی آمد کے سال اسلام قبول کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، اسلام کے ظہور تک کندہ کے بادشاہ رہے، نام معدی کرب تھا،ان کے سر کے بال ہمیشہ پراگندہ رہتے تھے، اس لیے اشعث کے لقب سے ہی جانے جانے لگے، سنہ 40ھ کو کوفہ میں وفات پائی، ان کی نماز جنازہ حسن بن علی رضی الله عنهما نے پڑھائی۔
عمر بن ابو سلمہ عبداللہ بن عبدالاسد بن ہلال بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم قرشی مخزومی، کنیت ابو حفص تھی۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ربیب(سوتیلا بیٹا) تھے، آپ صلى الله عليه وسلم ان کے رضاعی چچا بھی تھے، ہجرت سے دو سال یا اس سے پہلے پیدا ہوئے اور عبدالملک بن مروان کے عہد خلافت میں وفات پائی۔
ام حکیم بنت حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومیہ ایک جلیل القدر صحابیہ ہیں، احد کے دن مشرکوں کی طرف سے جنگ میں شامل رہیں، فتح مکہ کے دن مسلمان ہو گئيں، ان کا شوہر عکرمہ بن ابو جہل یمن کی جانب بھاگ گیا تھا، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی اجازت سے وہ ان کے پاس گئیں اور ان کو اپنے ساتھ لائیں، جس کے بعد وہ مسلمان ہو گئے، پھر وہ اپنے شوہر کے ساتھ رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے نکل پڑیں جہاں عکرمہ شہید ہو گئے۔ چنانچہ خالد بن سعید بن عاص نے ان سے نکاح کر لیا، یہ جنوبی دمشق میں واقع ہونے والی جنگ مرج الصفر سے کچھ پہلے کی بات ہے، جب خالد بھی اس جنگ میں شہید ہو گئے، تو ام حکیم نے کپڑے سمیٹ لیے اور کھل کر سامنے آ گئیں، حالاںکہ نکاح کے وقت لگائی جانے والی خوشبو خلوق کے نشان ابھی تک ان کے جسم پر باقی تھے، انھوں نے نہر پر ایک پل کے پاس جو بعد میں ام حکیم پل کے نام سے مشہور ہوا دشمنوں سے جنگ کیا اور اس خیمے کے ایک کھمبے سے جس میں خالد نے ان کے ساتھ شب زفاف منایا تھا سات رومیوں کو قتل کیا اور آخر میں خود بھی جام شہادت نوش کر لیا، یہ سنہ 14 کی بات ہے۔
ام المؤمنین حفصہ -رضی اللہ عنہا- امیر المؤمنین عمر بن خطاب کی بیٹی ہیں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے نکاح سے پہلے خنیس بن حذافہ کے نکاح میں تھیں، ابو عمر کہتے ہيں : اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی اور اس کے بعد رجوع کر لیا تھا، کیوںکہ جبریل نے آپ سے کہا تھا : حفصہ کو واپس کر لیجیے، کیوں کہ بہت زیادہ روزہ رکھنے والی اور تہجد کا اہتمام کرنے والی عورت ہے اور جنت میں آپ کی بیوی بھی ہو گی، وہ اپنے بھائی عبداللہ کو غابہ میں واقع جائداد کے صدقے کی وصیت کر گئی تھیں، جس کی وصیت عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کو کی تھی۔
حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی اسدی ایک بڑے صحابی ہیں، قریش کے گنے چنے لوگوں میں شمار ہوتے تھے،بعثت سے پہلے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے دوست تھے، بعثت کے بعد بھی آپ پیار و محبت رکھتے تھے، لیکن دیر سے یعنی فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے، انھوں نے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے پوچھا کہ میں دور جاہلیت میں کچھ چیزیں کرتا تھا کیا مجھے ان کا اجر ملے گا؟ آپ نے جواب دیا : "تم اپنے ان اچھے کاموں کے ساتھ مسلمان ہوئے ہو جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں۔" سنہ 54 میں وفات پائی۔
حلیمہ سعدیہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل کرنے والی خاتون ہیں، ان کے والد کی کنیت ابو ذؤیب اور نام عبداللہ بن حارث بن شجنہ تھا، عطا بن یسار سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی رضاعی ماں حلیمہ بنت عبد اللہ آپ کے پاس آئیں، تو آپ اٹھ کر ان کی طرف گئے اور ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی، جس پر وہ بیٹھ گئيں۔ وفات سنہ 8 کے بعد ہوئی۔
عوف بن مالک بن ابو عوف اشجعی غطفانی ایک بڑے صحابی ہيں، غزوۂ حنین سے پہلے مسلمان ہوئے، واقدی کہتے ہيں : "غزوۂ خیبر کے سال مسلمان ہوئے اور اس میں شریک بھی ہوئے۔" فتح مکہ اور غزوۂ موتہ میں بھی شریک رہے۔
ام ہانی بنت ابو طالب عبد مناف بن عبدالمطلب بن ہاشم قرشیہ ایک فضیلت والی خاتون ہیں،ان کا نام فاختہ ہے، کچھ لوگوں نے ہند بھی کہا ہے، ایک جلیل القدر صحابیہ ہیں، فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئیں۔ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے چند حدیثیں بھی روایت کیں،اور علی -رضی اللہ عنہ- کے بعد ایک زمانے تک زندہ رہیں۔
فاطمہ بنت قیس فہریہ یعنی فاطمہ بنت قیس بن خالد اکبر بن وہب، ضحاک بن قیس کی بہن ایک بڑی صحابیہ ہیں، ایک معزز خاتون تھیں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت میں فوت ہوئیں۔
کعب بن عجرہ انصاری سالمی مدنی ایک بڑے صحابی ہيں، بیعت رضوان میں شریک رہنے کی سعادت رکھتے تھے۔
کعب بن مالک انصاری سلمی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے شاعر، ساتھی، عقبہ کی رات شامل لوگوں میں سے ایک اور ان تین لوگوں میں سے ایک جو غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے اور بعد میں اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی۔
خالد بن ولید بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم قرشی مخزومی سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کے لقب سے مشہور تھے، کنیت ابو سلیمان ہے، ایک بڑے صحابی تھے، دور جاہلیت میں قریش کے معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے، حدیبیہ کے عمرہ تک کفار قریش کے ساتھ اور ان کی جانب سے جنگوں میں شریک ہوئے، سنہ 7 میں خیبر کے بعد مسلمان ہوئے، کچھ لوگوں کے مطابق اس سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ فتح مکہ میں شریک ہوئے اور اس موقع پر آزمائے گئے،اس کے بعد حنین اور طائف کی جنگوں میں بھی شامل رہے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو عزی نامی بت کو ڈھانے کے لیے بھیجا تھا اور انھوں نے اس کام کو انجام بھی دیا تھا، ان کے بارے میں اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا تھا : "خالد بن ولید اللہ کے ایک اچھے بندے اور پریوار کے ایک اچھے رکن ہیں، وہ اللہ کی ایک تلوار ہيں، جسے اللہ نے کافروں پر سونت رکھی ہے۔" سنہ 21 میں وفات پائی۔
خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ۔ ابو ایوب انصاری، بنو نجار سے تھے، ایک بڑے صحابی تھے۔ عقبہ، بدر، احد، خندق اور ساری جنگوں میں شریک رہے، بڑے بہادر، صبر و شکیب کے مالک، پرہیزگار اور اللہ کی راہ میں جہاد سے لگاؤ رکھنے والے انسان تھے، بنو امیہ کے زمانے تک باحیات رہے، مدینے میں رہتے تھے، بعد میں شام چلے گئے،جب امیر معاویہ کے دور میں ان کے بیٹے یزید نے قسطنطنیہ پر حملے کا ارادہ کیا تو ابو ایوب ایک غازی کی حیثیت سے ان کے ساتھ ہو گئے، جنگی کارروائیوں میں شریک بھی رہے، اسی بیچ بیمار ہوگئے تو وصیت کی کہ ان کی لاش کو ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین پر حملہ کیا جائے، وفات کے بعد ان کو قسطنطنیہ کے قلعے کی نیچے دفن کیا گيا۔ یہ سنہ 52 کی بات ہے۔
خباب بن ارت بن جندلہ تمیمی، کچھ لوگوں کے مطابق خزاعی، کنیت ابو عبداللہ ہے،ایک بڑے صحابی ہیں، دور جاہلیت میں قید کرکے مکہ میں بیچ دیے گئے،اس طرح ام انمار کے مولی ہوئے، کچھ لوگوں نے اور بھی نام لیے ہیں، بعد میں بنی زہرہ کے حلیف بن گئے، شروع دور کےاسلام قبول کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں شامل رہے، دور جاہلیت میں تلوار بنایا کرتے تھے، اس معنی کی حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی قرشیہ اسدیہ ام المؤمنین اور اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیوی،انھوں نے ہی سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور آپ کے لائے ہوئے پیغام پر ایمان لانے کا کام کیا تھا، جس سے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی الجھنیں کم ہوئی تھیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- جب بھی مخالفت کرنے والوں کی کوئی ناگوار بات سنتے اور خدیجہ -رضی اللہ عنہا- کو جاکر سناتےتو وہ آپ کے ڈھارس بندھاتیں اور لوگوں کے اس رویے پر دھیان نہ دینے کی تلقین کرتیں، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عائشہ -رضی اللہ عنہا- سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے خدیجہ -رضی اللہ عنہا- کو مجوف موتی سے بنے ایک گھر کی خوش خبری دی ہے، جس میں نہ شور و غوغا ہوگا اور نہ تکان ہوگی، ہجرت سے تین سال قبل ان کا انتقال ہوا۔
ابو مرثد غنوی یعنی کناز بن حصین غنوی ایک بڑے صحابی ہيں، اپنی کنیت سے مشہور ہيں، بزرگ اور مرتبے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ بدر، احد، خندق اور ساری جنگوں میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ شریک رہے، مدینے میں سنہ 12ھ میں ابوبکر -رضی اللہ عنہ- کی خلافت میں فوت ہوئے۔ 66 سال عمر ملی۔
ماریہ قبطیہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی آزاد کی ہوئی باندی اور آپ کے بیٹے ابراہیم کی والدہ ہيں، ان کا انتقال سنہ 16ھ میں ہوا، عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- ان کے جنازے کی نماز کے لیے خود لوگوں کو جمع کرتے دکھے۔ انھوں نے نماز جنازہ پڑھائی، بقیع میں مدفون ہوئیں۔
عبداللہ بن جعفر بن ابو طالب بن عبدالمطلب قرشی ہاشمی، کنیت ابوجعفر ہے، ایک بڑے صحابی ہیں۔ ان کے والد کی جنگ موتہ میں شہادت ہو گئی تو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کی کفالت کی، آپ ہی کے زیر سایہ نشو و نما پائی، بڑی عزت والے، شریف اور سخی انسان تھے۔
ام سلیم بن ملحان بن خالد بن زید انصاریہ، انس کی والدہ اور ام حرام کی بہن، ایک بڑی صحابیہ تھیں، انھوں نے حديث بھی روایت کی ہے، ان کا نام غمیصاء اور ایک قول کے مطابق رمیصاء ہے، نام سہلہ ہے، کچھ لوگوں نے رملہ، کچھ لوگوں نے رمیثہ، کچھ لوگوں نے انیقہ اور کچھ لوگوں نے ملیکہ بھی کہا ہے،ایک حدیث میں انس -رضی اللہ عنہ- سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "میں جنت میں داخل ہوا تو کسی کے قدموں کی آہٹ سنی، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ انس بن مالک کی ماں غمیصاء بنت ملحان ہیں۔" اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- مدینے کے کسی بھی گھر میں شوہروں کی عدم موجودگی میں داخل نہيں ہوتے تھے، سواے ام سلیم کے گھر کے، اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : "مجھے ان پر رحم آتا ہے، ان کے بھائی کو میرے ساتھ رہتے ہوئے قتل کیا گیا تھا۔" دور جاہلیت میں مالک بن نضر کے نکاح میں تھیں، اسی کے نکاح میں رہتے ہوئے انس پیدا ہوئے تھے، اسلام آیا، تو اپنی قوم کے ساتھ مسلمان ہو گئیں، اپنے شوہر سے اسلام قبول کرنے کو کہا تو وہ ناراض ہو گیا اور شام کی جانب نکل گیا، اسی بیچ وہ مر بھی گیا۔ ام سلیم کا انتقال سنہ 30 کے آس پاس ہوا۔
زبیر بن عوام بن خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصی بن کلاب قرشی اسدی، کنیت ابو عبداللہ ہے، ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ سلم- کے حواری، پھوپھی کے بیٹے، جنت کی خوشخبری حاصل کرنے والے دس خوش نصیب لوگوں میں سے ایک اور ان چھ لوگوں میں سے ایک جن کو عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے مشورے میں شامل کیا گیا تھا۔ زبیر -رضی اللہ عنہ- کا چچا ان کو ایک چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیا کرتا تھا، تاکہ کفر کی جانب پلٹ آئیں، لیکن ان کے منہ سے نکلتا تھا کہ میں کبھی کفر نہیں کر سکتا، عروہ کہتے ہیں : زبیر کے جسم میں تلوار کے تین زخم تھے جن کے اندر میں اپنی انگلی گھسا دیا کرتا تھا،ان میں سے دو زخم بدر کے دن لگے تھے اور ایک یرموک کے دن، سنہ 36 میں وفات پائی۔
ام المؤمنین رملہ بنت ابو سفیان صخر بن حرب امویہ، ان سے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے سنہ 6 میں نکاح کیا، اپنے شوہر عبداللہ بن جحش کے ساتھ ہجرت کی، لیکن جب اس نے ان کو الگ کردیا، تو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے شادی کر لی، عائشہ -رضی اللہ عنہا- کہتی ہیں : ام حبیبہ نے مجھ کو اپنی وفات کے وقت بلایا اور کہا : ہمارے درمیان ایسی باتیں ہو جایا کرتی تھیں جو عام طور سے سوکنوں کے بیچ ہوا کرتی ہیں، لہذا تم میری جانب سے ہونے والی اس طرح کی باتوں کو درگزر کر دو،جب میں نے درگزر کر دیا اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کی، تو انھوں نے کہا : تم نے مجھے خوش کر دیا، اللہ تمھیں خوش رکھے، انھوں نے ام سلمہ کے پاس بھی کچھ اسی طرح کا پیغام بھیجا تھا،سنہ 44 میں مدینے میں فوت ہوئيں، وفات کا سال کچھ اور بھی بتایا گیا ہے۔
عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ بن امرؤالقیس انصاری خزرجی ایک بڑے صحابی، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے شاعر، عقبہ کی رات متعین ہونے والے نقیبوں میں سے ایک اور بدری صحابی تھے، جاہلیت اور اسلام میں بڑے ذی مرتبہ انسان تھے، غزوۂ موتہ میں سنہ 8 میں وفات پائی۔
عبداللہ بن زبیر بن عوام اسدی قرشی ایک بڑے صحابی اور ایک دوسرے بڑے صحابی زبیر بن عوام کے بیٹے ہیں، سنہ 2ھ میں پیدا ہوئے، ان کی والدہ اسما بنت ابو بکر صدیق ہیں، اپنے زمانے میں قریش کے شہسوار تھے، ان کے کئی اہم کارنامے ہيں، نو سالوں تک خلافت سنبھالی، یہاں تک کہ سنہ 73ھ میں قتل کر دیے گئے۔
عبداللہ بن ابو اوفی علقمہ بن خالد بن حارث خزاعی ایک بڑے صحابی ہیں، بیعت رضوان میں شامل ہونے والے لوگوں میں سے ایک رہے، کوفہ میں وفات پانے والے سب سے آخری صحابی ہیں، وفات سنہ 87ھ میں ہوئی۔
ابو محمد عبداللہ بن عمرو بن عاص قرشی سہمی ایک بڑے صحابی ہیں، ذی علم اور عابد انسان تھے، سنہ 7ھ کے بعد مسلمان ہوئے اور ہجرت کی، کچھ غزووں میں بھی شریک رہے، ان کے بہت سے مناقب و فضائل ہیں، علم و عمل میں بڑے مضبوط تھے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے بڑی مقدار میں علم حاصل کیا، سنہ 65ھ ميں وفات پائی۔
زید بن ارقم بن زید بن قیس انصاری خزرجی۔ ان کی کنیت کیا تھی اس کے بارے میں اختلاف ہے،کچھ لوگوں کے مطابق ابو عمر ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق ابو عامر۔ ایک بڑے صحابی ہیں۔ احد کے دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے جنگ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملی، ان کی پہلی جنگ خندق ہے، کچھ لوگوں نے مریسیع بھی کہا ہے، صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ وہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ 17 غزوات میں شریک رہے، انھوں نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں، سورہ المنافقون کے نازل ہونے کے بارے میں ان کا ایک قصہ بھی ہے، جنگ صفین میں علی -رضی اللہ عنہ- کے ساتھ شریک ہوئے، مختار کے دور میں کوفہ میں سنہ 68 میں وفات پائی۔
زید بن ثابت بن ضحاک انصاری خزرجی ایک بزرگ صحابی ہیں، کنیت ابو خارجہ تھی،وحی لکھا کرتے تھے،مدینے میں سنہ 11 ماقبل ہجرت پیدا ہوئے اور مکہ میں نشو و نما پائی، چھ سال کے تھے کہ ابا کا قتل ہو گیا۔ 11 سال کی عمر میں اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ ہجرت کی، دین کے علم اور فقہ میں اس قدر کمال پیدا کیا کہ قضا، افتا، قراءت اور فرائض میں مدینے کی سرکردہ شخصیت شمار ہونے لگے، سنہ 45ھ میں وفات پائی، ابو ہریرہ کہتے ہیں : آج اس امت کے بحر زخار کا انتقال ہو گیا، امید ہے کہ اللہ عبداللہ بن عباس کو ان کا جانشیں بنائے۔
زید بن حارثہ بن شراحیل او شرحبیل کلبی ایک بڑے صحابی ہیں،بچپن میں ان کو اغوا کر لیا گیا تھا، جس کے بعد خدیجہ بنت خویلد نےخرید لیا تھا۔ جب اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- سے شادی ہوئی، تو خدیجہ -رضی اللہ عنہا- نے ان کو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو ہبہ کر دیا، آپ نے ان کو اسلام سے پہلے منہ بولا بیٹا بنایا، آزاد کر دیا اور اپنی پھوپھی کی بیٹی سے شادی کر دی، اس کے بعد لوگ ان کو زید بن محمد کہنے لگے، یہاں تک کہ یہ آیت اتری : "ادعوهم لآبائهم" (ان کو ان کے باپوں سے جوڑ کر پکارو۔) ان کا شمار سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے صحابہ میں ہوتا ہے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- ان کو جس سریے میں بھیجتے اس کا ان کو امیر بنا دیتے، آپ ان سے محبت کرتے اور آگے رکھتے تھے، غزوۂ موتہ میں آپ نے ان کو امیر بناکر بھیجا اور اسی غزوے میں سنہ 8 میں وہ شہید ہو گئے۔
ابو طلحہ انصاری ایک بڑے صحابی ہیں، نام زید بن سہل بن اسود نجاری ہے، ان کے بہت سے مناقب ہیں، جاہلیت اور اسلام دونوں ادوار میں گنے چنے بہادروں اور تیر اندازوں میں شمار ہوتے تھے، مدینے میں پیدا ہوئے، عقبہ، بدر، احد، خندق اور ساری جنگوں میں شریک ہوئے۔ بلند آواز انسان تھے، ایک حدیث میں ہے : "لشکر میں ابو طلحہ کی آواز ایک ہزار سپاہیوں سے بہتر ہے۔" خیبر کے دن اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پیچھے سوار رہے، ان کی وفات کب ہوئی، اس بارے میں بہت زيادہ اختلاف ہے، سنہ 32، 33، 34 اور 50 یا 51 جیسے الگ الگ اقوال ہیں۔
عتاب بن اسید بن ابوالعیص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف قرشی اموی ایک بڑے صحابی ہیں، فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے، وہ اسلام کے بارے میں شک و شبہ رکھنے والوں کے خلاف بڑے سخت اور ایمان والوں کے لیے بڑے نرم تھے۔
عقبہ بن عامر بن عبس جہنی ایک بڑے صحابی ہیں۔ عالم، قاری، فصاحت کے مالک، فقیہ، علم الفرائض کے رمز شناس، شاعر اور اہم شخصیت کے مالک انسان تھے، فتح مصر میں شریک رہے، وہیں معاویہ بن ابو سفیان کے دور خلافت کے آخر میں فوت ہوئے اور مقطم میں تدفین عمل میں آئی۔
محمد بن مسلمہ بن سلمہ بن خالد انصاری اوسی ایک بڑے صحابی ہیں، تبوک کو چھوڑ کے تمام جنگوں میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ شریک رہے، تبوک میں بھی شریک اس لیے نہیں ہو سکے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- ان کو مدینے میں اپنے جانشین کے طور پر چھوڑ کر نکلے تھے، فتح مصر کے موقعے پر موجود رہے، سنہ 43ھ میں وفات پائی۔
مستورد بن شداد بن عمرو قرشی فہری ایک بڑے صحابی ہیں، ان کو اور ان کے والد کو بھی صحبت کا شرف حاصل تھا،اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے انتقال کے وقت بچے تھے، فتح مصر میں شریک رہے، اسکندریہ میں سنہ 45ھ کو وفات پائی۔
سائب بن یزید بن سائب کندی ایک بڑے صحابی ہیں، سنہ 1ھ سے کچھ پہلے پیدا ہوئے۔ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے حجۃ الوداع کیا تو وہ اپنے والد کے ساتھ شریک ہوئے، ایک بار وہ بیمار تھے تو ان کی خالہ ان کو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس لائیں، آپ نے ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور دعا دی، پھر آپ نے وضو کیا تو انھوں نے آپ کے وضو کا پانی پیا اور ٹھیک ہو گئے، اس موقع پر انھوں نے مہر نبوت بھی دیکھی تھی، عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کو مدینے کے بازار کا عامل بنایا تھا، مدینے میں وفات پانے والے وہ آخری صحابی تھے،سنہ 91 میں وفات پائی۔
ابو حذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ایک بڑے صحابی ہیں۔ شروع دور میں اسلام قبول کیا۔ غزوۂ بدر میں شریک رہے۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- سے بڑے نزدیک رہے اور بڑے عالم شمار ہوئے۔ جب مدینہ آئے تو سب سے بڑے قاری ہونے کے ناطے مکہ سے آئے مہاجرین کی امامت کرتے رہے، عمر (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں : "اگر مجھے ان دو لوگوں میں سے کوئی ایک مل جاتا اور اسے میں امارت کا کام سونپ دیتا تو مجھے پورا اطمینان رہتا، ایک ابو حذیفہ کے آزاد کیے ہوئے غلام سالم اور دوسرے ابو عبیدہ بن جراح۔" یہ بات انھوں نے اس لیے کہی تھی کہ یہ دونوں حضرات ان کی زندگی ہی میں فوت ہو چکے تھے، سالم (رضی اللہ عنہ) کی وفات سنہ 12ھ میں ہوئی۔
سعد بن ابو وقاص مالک بن وہیب -ان کو ابن وہیب بھی کہا جاتا ہے،بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب قرشی زہری، کنیت ابو اسحاق ہے، ایک بڑے صحابی ہیں، ان دس خوش نصیب لوگوں میں شامل تھے جن کو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے جنت کی خوشخبری دی تھی، ان دس حضرات میں سب سے آخر میں وفات پائی۔ بڑے اچھے گھڑ سوار تھے، انھوں نے ہی سب سے پہلے اللہ کی راہ میں تیر پھینکی،ان چھ لوگوں میں بھی شامل رہے، جن کو عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- کے انتقال کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لیے مشورے میں شامل کیا گیا تھا، ان کی دعائیں قبول ہوتی تھیں،اس معاملے میں ان کی بڑی شہرت تھی، مدائن کسری کو فتح کیا، فتنے کے وقت الگ رہے سنہ 55 میں وفات پائی۔
ابو محمد سعید بن مسیب بن حزن قرشی مخزومی ایک بڑے عالم اور سرکردہ شخصیت کے مالک انسان اور بڑے تابعی ہیں، سنہ 13ھ کو پیدا ہوئے، مدینہ والوں کے عالم اور اپنے زمانے میں تابعین کے سردار تھے،وہ کہتے ہيں : "چالیس سال سے میری باجماعت نماز نہيں چھوٹی۔" مزید کہتے ہيں : "میں کسی ایسے شخص کو نہيں جانتا جو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم، ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہ) کے ذریعے کیے گئے کسی بھی فیصلے کی جانکاری مجھ سے زیادہ رکھتا ہو۔" اپنے زمانے میں فتوی کے باب میں سرفہرست تھے، ان کو فقیہ الفقھاء کہا جاتا تھا، ان کا ایک قول ہے : "شیطان جس چیز سے بھی مایوس ہوا اسے وہ عورتوں کی جانب سے ملی۔" سنہ 93ھ یا 94ھ میں وفات پائی۔
مسور بن مخرمہ بن نوفل بن اہیب قرشی زہری ایک بڑے صحابی ہیں۔ انھیں صحبت کا شرف بھی حاصل ہے اور حدیث روایت کرنے کی سعادت بھی، ان کا شمار نعمان بن بشیر اور عبداللہ بن زبیر جیسے کم سن صحابہ میں ہوتا ہے، عمر فاروق کے ساتھ رہتے اور ان کے علم کو یاد کرتے تھے، ہجرت کے دو سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے اور یہیں ربیع الاول سنہ 64ھ میں وفات پائی۔
معاذ بن جبل بن عمرو انصاری خزرجی ایک بڑے صحابی، فقیہوں کے امام، علما کے لیے علم کا خزانہ اور اس امت کے اندر حلال و حرام کا علم رکھنے والی سب سے بڑی شخصیت ہیں، عقبہ کی رات موجود رہے، بدر اور تمام جنگوں میں شریک رہے اور حلم، حیا اور سخاوت میں سب سے افضل انصاری نوجوان تھے، ان کے فضائل میں کئی حدیثیں آئی ہوئی ہیں۔
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث ہلالیہ عامریہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیوی تھیں، ان سے آپ کی شادی ذی قعدہ سنہ 7ھ میں ہوئی تھی۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی زوجیت میں آنے والی آخری خاتون تھیں، سنہ 51ھ میں فوت ہوئیں۔
ابو برزہ اسلمی کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ کسی نے نَضْلَہ بن عُبَيد کہا ہے، جو کہ سب سے صحیح ہے اور کسی نے نضلہ بن عمرو کہا ہے، ایک بڑے صحابی ہیں، فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے۔ سات غزووں میں شریک رہے، سنہ 65ھ میں وفات پائی۔
سعید بن جبیر بن ہشام والبی، اسدی کوفی۔ دراصل والب قبیلے سے ان کی نسبت آزاد کرانے کی وجہ سے کی گئی تھی، کنیت ابو محمد ہے، کچھ لوگوں نے ابو عبداللہ بھی کہا ہے، آپ امام، حافظ حدیث، قاری، مفسر تابعی تھے، سنہ 45ھ میں پیدا ہوئے،اصفہان میں تھے تو حدیث بیان نہيں کرتے تھے، لیکن جب کوفہ لوٹے، حدیث بیان کرنے لگے، ہم نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا : تم اپنے تجارتی سامان وہاں کھولو جہاں تم کو لوگ جانتے ہوں، عبداللہ بن عباس کے پاس جب کوفہ کے لوگ فتوی پوچھنے آتے، تو کہتے : کیا تمھارے یہاں ابن ام الدھماء نہيں ہیں؟ ان کی مراد سعید بن جبیر سے ہوا کرتی تھی، وہ رات میں اس قدر روتے تھے کہ آنکھیں کمزرو ہو گئیں، حجاج نے سنہ 95ھ کو ان کو قتل کر دیا۔
سعید بن زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی عدوی ایک بڑے صحابی اور ان دس خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے جنت کی خوش خبری دی تھی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان ہوئے، ہجرت کی اور جنگ احد اوراس کے بعد کی جنگوں میں شریک رہے،جنگ بدر کے موقعے پر مدینے میں موجود نہيں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں شریک نہیں ہو سکے،جنگ یرموک اور فتح دمشق کے موقعے پر بھی شریک رہے، سنہ 51ھ میں فوت ہوئے۔
ابو عبد اللہ سفیان بن سعید بن مسروق ثوری کوفی ایک مجتہد، فقیہ، محدث اور امام تھے، سنہ 97ھ میں پیدا ہوئے، یحی القطان کہتے ہيں : میرے نزدیک سب سے پسندیدہ شخصیت شعبہ کی ہے، میری نظر میں کوئی ان کے برابر نہیں ہے، لیکن ان کی مخالفت اگر سفیان کریں، تو میں سفیان کی راے کو لوں گا، ایک بار ایک شخص کی نظر ان پر پڑی تو دیکھا کہ وہ کچھ دینار لیے ہوئے ہیں، اس نے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ یہ دینار لیے ہوئے ہیں؟؟ انھوں نے جواب دیا : خاموش ہو جاؤ۔ اگر یہ دینار نہ ہوں تو باشاہ لوگ ہمیں رومال کی طرح استعمال کرکے پھینک دیں، سنہ 161ھ میں وفات پائی۔
سفیان بن عیینہ بن میمون ہلالی کوفی محدث اور فقیہ تھے، وہ ہلال قبیلے کے ایک شخص کے غلام تھے، جس نے ان کو آزاد کر دیا تھا، سن 107 ھ میں پیدا ہوئے، حرم مکی کے محدث تھے، کوفہ میں پیدا ہوئے، مکہ میں رہے اور وہیں وفات پائی، حافظ حدیث اور ثقہ راوی تھے، وسیع علم کے مالک اور بڑی قدر و منزلت والے انسان تھے، شافعی کہتے ہیں : "اگر مالک اور سفیان نہ ہوتے تو حجاز کا علم ضائع ہو جاتا۔" 70 حج کیے، سنہ 198ھ میں وفات پائی۔
سلمان فارسی ایک بڑے صحابی ہیں، وہ خود کو سلمان الاسلام کہتے تھے، اصلا اصفہان کے مجوسی پریوار سے تھے، مضبوط جسم، صحیح رائے کے مالک اور شریعتوں سے واقف انسان تھے، انھوں نے ہی غزوۂ احزاب کے موقعے پر مسلمانوں کو خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا، ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بارے میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف سامنے آ گیا تھا، دونوں کا کہنا تھا کہ سلمان ہم میں سے ہیں، بالآخر اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا کہ سلمان ہم اہل بیت کا حصہ ہے، بڑی لمبی عمر پائی اور سنہ 36 میں فوت ہوئے۔
عتبان بن مالک بن عمرو بن عجلان انصاری خزرجی سالمی ایک بڑے صحابی ہیں۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے اور عمر بن خطاب کے درمیان مؤاخاۃ کرائی تھی، بدر، احد اور خندق میں شریک رہے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے زمانے ہی میں بینائی سے محروم ہو گئے تھے، معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت کے وسط میں انتقال کر گئے، ان کی کوئی اولاد نہيں تھی۔
ابوبکر جزائری یعنی ابوبکر جابر بن موسی بن عبدالقادر بن جابر جزائری چالیس سال سے زیادہ عرصے تک مسجد نبوی میں مدرس رہے، ان کی کئی تالیفات ہیں، جیسے "منہاج المسلم"، "عقیدۃ المؤمن" اور "ایسر التفاسیر" وغیرہ، اس کے ساتھ ساتھ مختلف علمی و دعوتی پروگراموں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں، 97 سال کی عمر ملی۔ 4/12/1439 کو فوت ہوئے۔
سلمہ بن اکوع اسلمی حجازی مدنی، کنیت ابو عامر اور ابو مسلم ہے، ابو ایاس حجازی بھی کہا جاتا ہے۔ ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "ہمارے سب سے اچھے گھوڑ سوار ابو قتادہ اور سب سے اچھے پیدل سپاہی سلمہ ہیں۔" جب عثمان بن عفان -رضی اللہ عنہ- کا قتل ہو گیا، تو سلمہ ربذہ چلے گئے اور وہاں ایک عورت سے شادی کر لی، جن سے ان کو کئی بچے ہوئے، لیکن موت سے کچھ دنوں پہلے مدینہ آ گئے،سنہ 74ھ میں وفات پائی۔
سہل بن حنیف انصاری اوسی، کنیت ابو سعید اور ابو عبداللہ ہے۔ بدری صحابی ہیں، ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، جنگ احد کے دن اس وقت مورچے پر ڈٹے رہے جب لوگ بکھر گئے تھے، اس دن موت پر بیعت کی تھی، اپنی تیر اندازی کے ذریعے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کا دفاع کرتے رہے، جسے دیکھ کر آپ کہہ رہے تھے : "سہل کو تیر دو، وہ آسانی سے تیر اندازی کر رہا ہے۔" وہ خندق اور دیگر جنگوں میں بھی شریک رہے، جنگ جمل کے بعد علی -رضی اللہ عنہ- نے ان کو بصرہ کا گورنر بنایا، ان کے ساتھ جنگ صفین میں بھی شریک رہے، سنہ 38ھ کو فوت ہوئے۔
ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس قرشی عامری،شادی سہیل بن عمرو کے بھائی سکران بن عمرو سے ہوئی تھی، جب اس کی وفات ہوگئی، تو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی کر لی، سودہ پہلی خاتون تھیں جن سے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے خدیجہ -رضی اللہ عنہا- کے بعد شادی کی تھی، بعد میں ان کو ڈر ہو گیا تھا کہ کہیں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- مجھے طلاق نہ دے دیں، تو بولیں : آپ مجھے طلاق نہ دیں، اپنے نکاح میں رہنے دیں اور میری باری کے دن عائشہ کو دے دیں، آپ نے ان کی بات مان لی، تو یہ آیت اتری : "ان دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں صلح کر لیں اور صلح کرلینا ہی بہتر ہے۔" اور عائشہ -رضی اللہ عنہا- سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں : "مجھے جس انسان کی جگہ پر ہونا سب سے زیادہ پسند ہے، وہ سودہ ہیں، ان کے اندر تھوڑی سی سختی تھی، لیکن بہت جلد نرم بھی پڑ جایا کرتی تھیں۔" سنہ 54ھ کو فوت ہوئیں۔
طفیل بن عمرز بن طریف بن عاص بن ثعلبہ دوسی ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس آئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! دوس قبیلے نےنافرمانی کی ہے، لہذا آپ ان پر بد دعا کر دیجیے،یہ سن کر آپ نے فرمایا : "اے اللہ! دوس قبیلے کو ہدایت عطا کر۔" مکہ میں مسلمان ہوئے اور اس کے بعد اپنے شہر واپس چلے گئے، بعد ازاں عمرۂ قضا کے موقعے پر اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- سے ملے، فتح مکہ میں شامل رہے، سنہ 11ھ میں وفات پائی۔
شعبہ بن حجاج بن ورد ابو بسطام ازدی عتکی واسطی، امام، حافظ حدیث اور امیر المؤمنین فی الحدیث، عتکی نسبت غلامی سے آزادی کی وجہ سے ملی تھی، سنہ 82ھ کو پیدا ہوئے، اپنے زمانے میں بصرہ والوں کے عالم اور شیخ تھے، علم کا بڑا خزانہ تھے۔ ان کے زمانے میں کوئی بھی شخص حدیث میں ان کے آگے نہيں تھا، وہ حجت، ناقد، صالح، زاہد، قناعت شعار اور علم و عمل میں سرکردہ شخصیت کے مالک تھے، 160ھ میں فوت ہوئے۔
ابو سفیان صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی اموی، اپنے نام اور کنیت سے مشہور ہیں،ان کی ایک کنیت ابوحنظلہ بھی تھی، عام الفیل سے دس سال پہلے پیدا ہوئے، فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے، حنین اور طائف کی جنگوں میں شریک رہے، ان کا شمار ان لوگوں میں ہے جن کی تالیف قلب کی گئی تھی، اس سے پہلے احد اور احزاب کے دن وہ مشرکوں کے سردار رہ چکے تھے، ان کے مسلمان ہونے سے پہلے ہی اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کی بیٹی ام حبیبہ سے شادی کر لی تھی، ام حبیبہ پہلے ہی مسلمان ہو چکی تھی، ابوسفیان کا انتقال عثمان -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت میں سنہ 31ھ ہوا، کچھ لوگوں نے سنہ وفات 34 بتائی ہے۔
ابو امامہ باہلی کا نام صدی بن عجلان بن حارث کچھ لوگوں کے مطابق ابن وہب اور کچھ لوگوں کے مطابق ابن عمرو بن وہب بن عریب بن وہب بن ریاح بن حارث بن معن بن مالک ابن اعصر، اپنی کنیت سے مشہور ہیں، ان کا بیان ہے کہ جب یہ آیت اتری : "اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے۔" تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں بھی درخت کے نیچے آپ سے بیعت کرنے والوں میں شامل ہوں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے جواب دیا : "تم مجھ میں سے ہو اور میں تم میں سے ہوں۔" سنہ 81ھ میں فوت ہوئے۔
ابوالفضل عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف قرشی ہاشمی ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے چچا ہیں،اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- سے دو سال پہلے پیدا ہوئے، دور جاہلیت میں حاجیوں کو پانی پلانے اور خانۂ کعبے کی دیکھ بھال کرنے کی ذمے داری ان کی ہی تھی، انصار کے ساتھ ہونے والی عقبہ کی بیعت میں موجود تھے، حالاںکہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، نہ چاہتے ہوئے بدر کی جنگ میں مشرکوں کے ساتھ شریک ہوئے، جنگ میں گرفتار ہوئے اور اپنے اوراپنے بھتیجے عقیل بن ابوطالب کا فدیہ دیا،پھر مکہ واپس ہو گئے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ مسلمان ہوگئے تھے اور یہ بات لوگوں سے چھپا رکھی تھی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ سے اطلاعات بھی لکھ کر بھیجتے رہے، فتح مکہ سے کچھ پہلے مسلمان ہوئے اور اس فتح میں شریک رہے، حنین کے دن مضبوطی سے ڈٹے رہے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "جس نے عباس کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔ کیوںکہ انسان کا چچا اس کے باپ کے ہم رتبہ ہوتا ہے۔" سنہ 32ھ میں فوت ہوئے۔
ابوسعید عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس قرشی ایک بڑے صحابی ہیں، جاہلی دور میں ان کا نام عبد کلال تھا، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے بدل کر عبدالرحمن رکھ دیا۔ ایک مضبوط قائد اور حکمراں تھے، فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے، غزوۂ موتہ میں شامل رہے، بصرہ میں قیام پذیر ہو گئے تھے، سجستان اور کابل وغیرہ فتح کیا، سجستان کے گورنر بھی رہے۔ خراسان پر فوج کشی کی اور کئی فتوحات بھی حاصل کیں، اس کے بعد بصرہ لوٹ گئے اور وہيں سنہ 50ھ میں وفات پائی۔
ابو ہریرہ عبدالرحمن بن صخر دوسی، ابن عبدالبر کہتے ہيں : "خود ان کے اور ان کے والد کے نام کے بارے میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس کا احاطہ اور بیان ممکن نہيں ہے۔" ایک بڑے صحابی ہیں، مسند اسلام ہیں، صحابہ میں سب سے زیادہ حدیثیں ان سے ہی مروی ہیں، دن میں 12000 بار تسبیح پڑھا کرتے تھے،کئی بار مدینے کے گورنر رہے، سنہ 57 یا 59 میں فوت ہوئے۔
ابوالفرج ابن الجوزی عبدالرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبیداللہ بن عبداللہ بن حمادی قرشی تیمی بکری بغدادی حنبلی، ان کا سلسلۂ نسب ابو بکر صدیق تک جاتا ہے، سنہ 509ھ کو پیدا ہوئے۔ امام، علامہ، حافظ، مفسر اور الگ الگ موضوعات پر بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں، تفسیر میں بحر زخار، سیرت و تاریخ میں علامہ، فن حدیث کے ماہر، فقیہ اور اجماع و اختلاف سے واقف کار تھے، ان کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں : میں نے اپنے دادا کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے : "میں نے اپنی ان دو انگلیوں سے دو ہزار جلدیں لکھی ہیں، میرے ہاتھ پر ایک لاکھ لوگوں نے توبہ کی ہے اور میرے ہاتھ پر بیس ہزار لوگ مسلمان ہوئے ہیں۔" ہفتے میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے، بچپن ہی سے وعظ کہنا شروع کر دیا تھا، پھر ان کی عزت و احترام میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کا وعظ سننے کے لیے بھیڑ اکٹھی ہونے لگی، 597ھ کو فوت ہوئے۔
ابو عمرو عبدالرحمن بن عمرو بن یحمد اوزاعی، امام اور فقیہ تھے، سنہ 88ھ کو پیدا ہوئے، اوزاع نامی محلے میں رہتے تھے، جو دمشق کے الفرادیس نامی دروازے کے پاس واقع تھا، وہ ثقہ اور معتبر تھے،ان کا ایک مستقل اور مشہور مسلک بھی تھا، جس پر ایک مدت تک شام اور اندلس کے فقہا نے عمل کیا ہے، لیکن بعد میں ختم ہو گیا، ان کا قول ہے کہ جس نے علما کے صرف انوکھے فتووں کو لیا، وہ اسلام سے خارج ہو گیا، سنہ 157ھ میں وفات پائی۔
عبدالرحمن بن عوف بن عبد عوف بن عبدالحارث بن زہرہ بن کلاب قرشی زہری، کنیت ابو محمد ہے، ایک بڑے صحابی تھے،اصحاب الفیل کے واقعے کے دس سال بعد پیدا ہوئے، ان دس لوگوں میں سے ایک تھے جن کو جنت کی خوش خبری دی گئی تھی، اسی طرح ان چھ اہل شوری میں سے بھی ایک تھے، جن کے بارے میں عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے بتایا ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- وفات کے وقت ان سے راضی تھے، ابتدائی دور میں ہی دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے مسلمان ہو گئے تھے، دوبار ہجرت کی، بدر اور دیگر تمام جنگوں میں شریک ہوئے، انھوں نے بدر میں شریک ہونے والے تمام صحابہ کے لیے جن کی تعداد ایک سو تھی چار چار سو دینار کی وصیت کی تھی، سنہ 32ھ پیدا ہوئے۔
عبدالرحمن بن ناصر بن عبداللہ ابن سعدی تمیمی نجد سے تعلق رکھنے والے ایک حنبلی فقیہ اور مفسر ہیں، ان کی پیدائش اور وفات قصیم کے عنیزہ میں ہوئی، سنہ 1307 کو پیدا ہوئے، انھوں نے ہی سنہ 1358 میں پہلی بار وہاں کوئی لائبریری قائم کی، ان کے سب سے نمایاں شاگرد شیخ محمد بن عثیمین ہیں، لگ بھگ 30 کتابیں لکھیں، کچھ کتابوں کے نام اس طرح ہیں : "تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان"، "تيسير اللطيف المنان في خلاصة مقاصد القرآن"، "القواعد الحسان في تفسير القرآن"، "طريق الوصول إلى العلم المأمول من الأصول"، "الأدلة القواطع والبراهين في إبطال أصول الملحدين"۔ سنہ 1376ھ کو وفات پائی۔
ابراہیم بن موسی بن محمد ابو اسحاق لخمی غرناطی مشہور بہ شاطبی، ان کی کنیت جس سے ان کو جانا جاتا ہے ابو اسحاق ہے، فقیہ، اصولی اور مفسر تھے، راجح قول کے مطابق غرناطہ میں پیدا ہوئے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہیں پروان چڑھے اور جوان ہوئے اور انھوں نے غرناطہ چھوڑا ہے اس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہے، ان کے کہیں نہ جانے کی وجہ یہ ہے کہ علما کے اسفار طلب علم کے لیے ہوا کرتے تھے، لیکن علم کی دریائیں تو شاطبی کے شہر ہی میں بہتی تھیں، سنہ 790ھ کو وفات پائی۔
ابی بن کعب بن قیس بن عبید انصاری خزرجی ایک بڑے صحابی ہیں، کنیت ابوالمنذر اور ابوالطفیل تھی، ذی علم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے فرمایا : "ابی مسلمانوں کا سردار ہے۔" اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان سے پوچھا : "اے ابوالمنذر! کیا تم جانتے ہو کہ تمھارے پاس اللہ کی جو کتاب ہے اس کی کون سی آیت سب سے عظیم ہے؟ پھر انھوں نے جب جواب دیا : {الله لا إله إلا هو الحي القيوم} تو آپ نے ان کے سینے پر مارا اور فرمایا : "اللہ کی قسم! تم کو یہ علم مبارک ہو۔" اسی طرح اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان سے کہا تھا : "اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے سامنے {لم يكن الذين كفروا من أهل الكتاب}" پڑھوں، یہ سن کر انھوں نے کہا کہ کیا سچ مچ اللہ نے میرا نام لیا ہے؟ جب آپ نے ہاں کہا تو وہ رو پڑے، ان کے سنہ وفات کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف ہے، کچھ لوگوں نے سنہ 19ھ کہا ہے، کچھ لوگوں نے 20ھ کہا ہے اور کچھ لوگوں نے 32ھ۔
شیخ الاسلام احمد بن عبدالسلام بن تیمیہ حرانی امام مجتہد اور مجدد تھے، سنہ 661 میں پیدا ہوئے، علوم نقلیہ اور عقلیہ کے سمندر تھے، ذہن و فراست اور تیز فہمی میں اللہ کی ایک نشانی تھے، ان کو تقی الدین کہا جائے یہ ان کو ناپسند تھا، اس کے باوجود وہ اسی سے اور شیخ الاسلام سے مشہور ہوئے، علامہ ابن دقیق العید ان کے بارے میں کہتے ہيں : "جب میں ابن تیمیہ سے ملا، تو میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی آنکھوں کے سامنے تمام علوم تھے،جن میں سے جتنا چاہتے لیتے اور جتنا چاہتے چھوڑتے جاتے تھے۔" ابن حجر عسقلانی کہتے ہيں : "فقہ سیکھی، ماہر ہوئے، نمایاں مقام حاصل کیا، تدریس و افتا کا کام کیا، ہم عصروں سے فوقیت لے گئے، سرعت استحضار، مضبوط عزم و ارادے، تمام منقول اور معقول علوم اور سلف و خلف کے مذاہب سے بھرپور واقفیت میں ایک نایاب نمونہ بن گئے۔" انھوں نے بہت ساری تصنفیات چھوڑی ہيں، یہاں تک کہ ذہبی کہتے ہيں : "شاید اس وقت ان کی کتابیں 4000 یا اس سے زیادہ کاپیوں پر مشتمل ہوں گی۔" ان کی کچھ کتابیں اس طرح ہیں : "درء تعارض العقل والنقل"، "منهاج السنة النبوية"، "الاستقامة"، "الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح"، "بيان تلبيس الجهمية"، "اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم"۔ سنہ 728ھ میں وفات پائی۔
ابو عبداللہ امام احمد بن محمد بن حنبل شیبانی، سنہ 164 میں پیدا ہوئے، اسلام کے ایک بڑے امام تھے، ان سے متعلق بہت سی باتیں بڑی مشہور ہیں، ان کے بارے میں امام شافعی نے کہا ہے : "احمد آٹھ جہتوں سے امام تھے : فن حدیث میں امام تھے، فقہ میں امام تھے، لغت میں امام تھے، قرآن میں امام تھے، فقر میں امام تھے، زہد میں امام تھے، تقوی میں امام تھے اور سنت میں امام تھے۔" خلق قرآن کے فتنے میں باشاد وقت کے سامنے ان کے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور اذیت برداشت کرنے کا واقعہ بہت مشہور ہے، یہ واقعہ دراصل ان کے علم و صبر پر دلالت کرتا ہے، اسی کے بعد ان کو امام اہل سنت کا لقب دیا گیا، کیوںکہ انھوں نے اس وقت سنت کا اظہار کیا تھا جب بدعت پھیل چکی تھی۔ سنت کے جتنے بھی اماموں کو یہ امام اہل سنت کا لقب ملا ہوا ہے، اس کا معنی یہی ہے، جب کہ بدعت کے اماموں کا معاملہ اس کے برخلاف ہے،کیوںکہ وہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے بدعت کو گھڑنے اور اسے فروغ دینے کا کام کیا۔ اس طرح دیکھا جائے تو سنت کے اماموں کی جانب اس کی نسبت اسے ظاہر کرنے اور پھیلانے پر مبنی ہے، جب کہ بدعت کی نسبت اس کے اماموں کی جانب اسے صادر کرنےاور گھڑنے پر مبنی ہے۔ انھوں نے "المسند"، "الزهد"، "الأشربة"، "رسالة في المسيء صلاته" اور "الرد على الزنادقة والجهمية" وغیرہ جیسی تصنیفات چھوڑی ہیں،ان کے شاگردوں نے ان سے لگ بھگ 60 ہزار مسائل نقل کیے ہیں، اصولی اور فروعی مسائل میں ان کا مسلک ایک مستقل مسلک کی حیثیت رکھتا ہے، سنہ 241ھ میں وفات پائی۔
اسامہ بن زید بن حارثہ بن شراحیل بن عبدالعزی بن امرئ القیس کلبی ایک بڑے صحابی تھے، وہ ایک آزاد کردہ غلام اور بڑے امیر تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے محبوب، محبوب کے بیٹے، آزاد کردہ غلام اور آزاد کردہ غلام کے بیٹے تھے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو شام پر حملہ کرنے والی ایک فوج کا امیر بنایا تھا، جب کہ اس فوج میں عمر اور ان جیسے بڑے بڑے صحابہ موجود تھے، وہ فوج ابھی چل نہيں سکی تھی کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کا انتقال ہو گیا۔ لہذا ابو بکر صدیق نے ان کو بلا تاخیر بھیج دیا۔ اسامہ سے ثابت ہے کہ انھوں نے کہا : "اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- مجھے اور حسن کو اٹھاتے اور کہتے : "اے اللہ! مجھے ان دونوں سے محبت ہے، تو بھی ان سے محبت رکھ۔" سنہ 54ھ کو فوت ہوئے۔
ام عبداللہ اسما بنت ابو بکر عبداللہ بن ابو قحافہ عثمان تیمیہ ایک بڑی صحابیہ تھیں، ابو بکر صدیق کی بیٹی، زبیر بن عوام کی بیوی، عبداللہ بن زبیر کی ماں اور ام المؤمنین عائشہ کی ماں تھیں،ان کو ذات النطاقین کہا جاتا تھا، سب سے اخیر میں وفات پانے والی مہاجر خاتون تھیں۔ ان سے کئی حدیثیں مروی ہیں، بڑی لمبی عمر پائی، آخری عمر میں نابینا ہو گئی تھیں، سنہ 73ھ میں وفات پائی۔
اسما بنت عمیس بن معد -یا معبد- بن حارث خثعمیہ،کنیت ام عبداللہ ہے۔ ایک بڑی صحابیہ ہيں، میمونہ بنت حارث کی ماں شریک بہن اور جعفر بن ابوطالب کی بیوی ہیں، جب جعفر ان کو چھوڑ کو وفات پا گئے، تو ابوبکر -رضی اللہ عنہ- نے ان سے شادی کر لی اور جب ان کا بھی انتقال ہو کیا تو علی بن ابوطالب نے شادی کر لی، ہر ایک سے ان کو بچے بھی ہوئے، پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی اور اس کے بعد مدینے کی جانب ہجرت کی، اسی لیے ان کو صاحبۃ الہجرتین کہا جاتا ہے، علی -رضی اللہ عنہ- کے بعد فوت ہوئیں۔
اسید بن حضیر بن سماک بن عتیک بن نافع بن امرؤ القیس بن زید بن عبدالاشہل انصاری اوسی اشہلی، کنیت ابو یحی ہے۔ کچھ لوگوں نے ابو عتیک بھی کہا ہے، عظیم صحابی ہیں، عقبہ کی رات معتین ہونے والے دس نقیبوں میں سے ایک تھے، شروع دور میں مسلمان ہوئے، ان کا شمار بڑے معزز، دانش مند اور عقل و خرد کے مالک انسانوں میں ہوتا ہے، بڑی اچھی آواز میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے، جب ان کی وفات ہوئی، تو عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کی چار پائی کے دو پایوں کے بیچ کا حصہ پکڑ کر اٹھایا اور بقیع میں لے جاکر نماز پڑھی اور پھر نماز جنازہ پڑھی، یہ سنہ 20ھ کی بات ہے۔
ابوالیقظان عمار بن یاسر عنسی مکی بنو مخزوم کے آزاد کردہ غلام تھے، وہ ایک بڑے امام اور بالکل شروع دور میں اسلام قبول کرنے والے صحابی تھے، ان کی ماں بھی جو بنو مخزوم کی آزاد کردہ غلام تھیں ایک بڑی صحابیہ تھیں۔ عمار -رضی اللہ عنہ- کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بڑی سزائیں دی گئیں، بدر اور دیگر تمام جنگوں میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ شریک رہے، پہلے ہجرت کرکے حبشہ گئے اور اس کے بعد مدینہ، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو، ان کے والد کو اور ان کی والدہ کو جنت کی خوش خبری دی تھی، سنہ 37ھ میں صفین کے دن باغی جماعت نے ان کو قتل کر دیا تھا۔
امیر المؤمنین ابو حفص عمر بن خطاب بن عبدالعزی قرشی عدوی، فاروق کے لقب سے جانے جاتے تھے، ابتدائی دور میں ہجرت کرنے والے لوگوں، بیعت رضوان میں شامل افراد اور ان دس خوش قسمت لوگوں میں شمار ہوتے تھے، جن کو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے جنت کی بشارت دی تھی، تمام جنگوں میں شریک رہے، ابو بکر -رضی اللہ عنہ- کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا، ان کے بعد خلیفہ ہوئے،سب سے پہلے خلیفہ تھے، جن کو امیر المؤمنین کہا گیا، مدینے میں موجود رہنے والا یا نہ رہنے والا کوئی بھی صحابی ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے نہيں چھوٹا، سنہ 22ھ میں وفات پائی۔
عمرو بن حبیب بن عمرو بن عمیر بن عوف ثقفی ایک بڑے صحابی ہیں، کنیت ابو محجن تھی، جاہلیت اور اسلام میں ایک بڑے بہادر، شاعر اور سخی کی حیثیت سے زندگی گزاری، سنہ 9ھ کو مسلمان ہوئے، کچھ حدیثیں بھی روایت کیں، شراب پینے کے عادی تھے، لہذا عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان پر کئی بار حد جاری کی، بعد ازاں انہیں سمندر کے ایک جزیرے میں جلا وطن کر دیا، چنانچہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور سعد بن ابو وقاص کے پاس چلے گئے، جوقادسیہ میں فارسیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کو لکھ بھیجا کہ ان کو قید کر لیں۔ لہذا سعد -رضی اللہ عنہ- نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ان کو اپنے پاس قید کرکے رکھ لیا، قادسیہ کی جنگ کے دوران ایک دن جب بڑی سخت لڑائی ہونے لگی، تو ابو محجن نے سعد کی بیوی سلمی سے ان کو کھول دینے کی گزارش کی اور وعدہ کیا کہ اگر بچ گئے تو دوبارہ قید میں واپس آ جائیں گے، اس تعلق سے کچھ اشعار بھی پڑھنے لگے، چنانچہ سلمی نے ان کو چھوڑ دیا، تو بڑی شان دار لڑائی لڑی۔ پھر جنگ ختم ہوئی تو دوبارہ قید خانے میں واپس آ گئے، جب سلمی نے یہ باتیں سعد کے سامنے رکھیں تو انھوں نے ان کو چھوڑ دیا اور کہا کہ میں تم پر کبھی حد جاری نہيں کروں گا، اس سے متاثر ہوکر ابو محجن نے بھی کہا کہ اللہ کی قسم! آج کے بعد میں کبھی شراب نہیں پیوں گا، چنانچہ انھوں نے اس کے بعد پھر کبھی شراب نہيں پی، آذربائیجان یا جرجان میں سنہ 30 میں وفات پائی۔
عمرو بن عاص بن وائل قرشی سہمی امام اور بڑے صحابی تھے، کنیت ابو عبداللہ تھی، کچھ لوگوں نے ابو محمد بھی کہا ہے، قریش کے ایک نہایت چالاک اور جہاں دیدہ انسان تھے،ان کی ذہانت اور دانش مندی کی مثال دی جاتی تھی۔، سنہ 8ھ کے اوائل میں ہجرت کرکے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس خالد بن ولید اور کعبہ کے متولی عثمان بن طلحہ کے ساتھ آئے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- ان لوگوں کے آنے اور اسلام قبول کرنے سے بڑے خوش ہوئے، آپ نے عمرو -رضی اللہ عنہ- کو بعض لشکروں کا سپہ سالار بھی بنایا،صحیح حدیث میں ابو عثمان نہدی سے مروی ہے، انھوں نے عمرو سے روایت کیا ہے کہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو غزوۂ ذات السلاسل کے لیے روانہ ہونے والے لشکر کا سپہ سالار بنایا، جب کہ اس میں ابوبکر اور عمر جیسے صحابہ بھی شامل تھے، سنہ 42ھ میں وفات پائی۔
ابن ام مکتوم کا نام اکثر لوگوں کے نزدیک عمرو ہے، کچھ لوگوں نے عبداللہ بھی کہا ہے، ان کے والد کا نام قیس بن زائدہ قرشی عامری ہے، ان کی مان ام مکتوم کا نام عاتکہ مخزومیہ ہے، ایک بڑے صحابی تھے، نابینا تھے، مکہ میں مسلمان ہوئے اور جنگ بدر کے بعد ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے، مدینہ میں بلال -رضی اللہ عنہ- کے ساتھ اذان دیتے تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- جب جنگوں میں جاتے، تو عام طور پر ان کو ہی اپنا نائب بناکر مدینے میں چھوڑ جاتے تھے، انھوں نے حدیث بھی روایت کی ہے، جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے تو ان کے ساتھ ایک کالا جھنڈا اور ایک پورے بدن کو چھپانے والی ذرہ تھی، نابینا ہونے کے باوجود جنگ کی، اس کے بعد مدینہ لوٹ گئے، وہيں پر عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- کی وفات سے کچھ دن پہلے وفات پائی، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ قادسیہ میں سنہ 15ھ میں وفات پائی۔
ابو دردا عویمر بن زید بن قیس، کچھ لوگوں کے مطابق عویمر بن عامر، کچھ لوگوں کے مطابق بن عبداللہ، کچھ لوگوں کے مطابق بن ثعلبہ بن عبداللہ انصاری خزرجی، امام اور قابل تقلید شخصیت کے مالک، ایک بڑے صحابی، اس امت کے حکیم، دمشق کے قاضی اور دمشق کے قاریوں کے سردار تھے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے سامنے تلاوت کرنے والے لوگوں میں شمار ہوتے ہيں،اس بات کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے آپ کے علاوہ کسی اور کے سامنے تلاوت کی ہو۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی زندگی میں قرآن جمع کرنے والے صحابہ میں بھی ان کا شمار ہے۔ سنہ 32ھ میں عثمان بن عفان -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت میں ان کا انتقال ہوا، حالاںکہ سنہ وفات میں کچھ اختلاف بھی ہے۔
فضل بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف قرشی ہاشمی۔ کنیت ابو محمد اور ابو عبداللہ ہے۔ ایک بڑے صحابی ہيں۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے چچیرے بھائی تھے،عباس کی اولاد میں سب سے پہلی اولاد تھی، عباس انہی کے نام کی کنیت رکھتے تھے،اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ سنہ 8ھ میں فتح مکہ میں شامل رہے۔ آپ کے ساتھ جنگ حنین میں بھی شامل رہے، اس موقع پر آپ کے ساتھ اس وقت ڈٹے رہنے والے اہل بیت اور صحابہ میں بھی شامل رہے جب لوگ شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ حجہ الوداع کے موقعے پر بھی شریک رہے، مزدلفہ سے منی تک آپ نے ان کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا،یہی وجہ ہے کہ ان کو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کا ردیف کہا جاتا ہے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی وفات کے وقت موجود رہے اور آپ کو غسل دلانے میں بھی شامل رہے، وہ علی بن ابو طالب کو پانی انڈیل کر دیتے تھے، ان کی تاریخ وفات کے بارے میں رایوں کے درمیان اختلاف ہے، اس تعلق سے سب سے صحیح روایت یہ ہے کہ وہ جہاد کے لیے شام کی جانب نکلے اور طاعون عمواس کے شکار ہوکر عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت میں اردن کے علاقے میں سنہ 18ھ میں وفات پائی۔
ابو العاص بن ربیع بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب قرشی عبشمی۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے داماد، آپ کی بیٹی زینب کے شوہر اور امامہ کے والد جن کو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نماز کی حالت میں بھی اٹھا لیا کرتے تھے۔ ان کا نام لقیط ہے،کچھ لوگوں نے اور بھی نام بتائے ہيں،ان کی ماں ہالہ بنت خویلد ہيں، جو خدیجہ کی بہن تھیں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے ایک اچھے داماد ہونے کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا : "اس نے مجھ سے بات کی تو سچ بتایا اور مجھ سے وعدہ کیا تو اسے پورا کرکے دکھایا۔" فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور سنہ 12ھ کو وفات پائی۔
ام کلثوم بنت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب قرشیہ ہاشمیہ۔ ان کی ماں خدیجہ بنت خویلد تھیں، ان سے عتیبہ بن ابولہب نے بعثت سے پہلے شادی کی تھی، جب اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بعثت ہوئی اور اللہ نے {تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ} اتاری تو عتیبہ سے اس کے باپ ابو لہب نے کہا : اگر تم نے محمد کی بیٹی کو طلاق نہیں دی تو ہمارا آمنا سامنا حرام ہے،چنانچہ عتیبہ نے ان کو الگ کر دیا، حالاںکہ ابھی تک اس نے ام کلثوم کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم نہیں کيے تھے۔ اس کے بعد وہ اپنے ابا حضور کے ساتھ مکے ہی میں رہیں، وہ اپنی والدہ کے ساتھ مسلمان ہو چکی تھیں اور اپنی بہنوں کے ساتھ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ سلم- کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کر چکی تھیں جب دیگر عورتوں نے بیعت کی تھی، بعد میں ہجرت کرکے مدینہ چلی گئیں اور وہیں رہیں، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیٹی رقیہ کا انتقال ہو گیا، تو آپ نے ان کا نکاح عثمان بن عفان -رضی اللہ عنہ- سے کر دیا، یہ ربیع الاول سنہ 3ھ کی بات ہے، اسی سال جمادی الآخرۃ میں رخصتی بھی ہو گئی، انہی کی زوجیت میں تھیں کہ سنہ 9ھ میں انتقال ہو گیا،ان کو کوئی اولاد نہ ہوئی۔
مالک بن انس بن ابو عامر اصبحی مدنی، شیخ الاسلام، حجۃ الامۃ، امام دارالہجرۃ اور چار اماموں میں سے ایک، سنہ 93ھ کو پیدا ہوئے،سارے مسالک کے علما ان کی امامت اور قوت حفظ و تثبیت پر متفق ہیں، شافعی کہتے ہيں : "جب علما کا ذکر ہو، تو مالک ایک ستارے کی طرح ہیں۔" ان سے مروی حدیثیں صحیح ترین حدیثوں میں شمار ہوتی ہیں، فقہ میں بھی امامت کا درجہ رکھتے تھے، 'الموطأ' بہت مشہور ہے، سنہ 179ھ وفات پائی۔
ابوالحجاج مجاہد بن جبر، قیس بن سائب مخزمی کے آزاد کردہ غلام، تابعی ہیں۔ امام اور قاریوں و مفسروں کے سردار۔ عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- کی خلافت میں سنہ 21ھ میں پیدا ہوئے۔ عبداللہ بن عباس -رضی اللہ عنہما- سے بڑی تعداد میں حدیثیں روایت کی ہیں۔ ان سے قرآن، تفسیر اور فقہ کا علم حاصل کیا۔ اسی طرح ابوہریرہ اور عائشہ وغیرہ سے بھی علم حاصل کیا۔ مکہ میں سجدے کی حالت میں سنہ 104میں وفات پائی۔ اس وقت عمر 83 سال تھی۔
ابوالعباس عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب ہاشمی، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے چچازاد بھائی، ایک بڑے صحابی تھے،اس امت کے مایۂ ناز عالم، فقیہ العصر اور تفسیر کے امام تھے، بڑی تعداد میں حدیث روایت کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتے ہيں، ان کے بہت سے مناقب و فضائل ہيں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا : "اے اللہ! اسے دین میں تفقہ عطا فرما اور تاویل سکھا۔" سنہ 68ھ میں وفات پائی۔
ابوبکر صدیق عبداللہ بن ابو قحافہ عثمان بن عامر قرشی تیمی، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے خلیفہ، اسلام قبول کرنے والا پہلا مرد، ان دس لوگوں میں سے ایک جن کو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے جنت کی خوشخبری دی تھی اور اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے غار کے ساتھی، ان کے اس واقعہ کے پس منظر میں قرآن کی آیت بھی اللہ نے اتاری ہے جو قیامت تک پڑھی جائے گی، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کی بیٹی سے شادی کی تھی، تمام جنگوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ شریک رہے، آپ نبی کریم -صلی اللہ علیہ و سلم- کے بے بعد اس امت کے سب سے افضل انسان ہیں، آپ کے مرض الموت میں لوگوں کو امام بن کر نماز پڑھائی، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کے بارے میں فرمایا تھا : "اپنی صحبت اور مال کے ذریعے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے لوگوں میں سے ایک ابو بکر ہیں، اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو 'خلیل' بناتا، تو ابوبکر کو بناتا، لیکن یہاں اسلامی اخوت و مودت کارفرما ہے۔:(صحیح بخاری) سنہ 13 میں وفات پائی۔
ابو موسی اشعری عبداللہ بن قیس بن سلیم بن حضار اشعری ایک بڑے صحابی ہیں، مکہ میں بہت پہلے مسلمان ہوئے، حبشہ کی طرف ہجرت کی، بہت سی حدیثیں روایت کیں، عابد، فقیہ، حدیث کا علم رکھنے والے اور فہم و دانش کے مالک انسان تھے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا : "اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ معاف کر اور اسے قیامت کے دن ایک پر اعزاز مقام میں داخل کر۔" سنہ 42ھ میں وفات پائی، مکہ میں دفن ہوئے، کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ کوفہ کے قریب دو میل کی دوری پر ثویہ نامی جگہ میں دفن ہوئے۔
عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب ہذلی ایک بڑے صحابی ہیں، کنیت ابو عبداللہ ہے، ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے اور دونوں ہجرتیں کیں، بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں شریک رہے، ہمیشہ اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ رہے، آپ کے کفش بردار تھے،فقیہ و قاری تھے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "جو قرآن کو اسی تازگی کے ساتھ پڑھنا چاہتا ہوجس طرح وہ نازل ہوا ہے وہ ابن ام عبد کے انداز میں پڑھے۔" سنہ 32ھ میں وفات پائی۔
عبداللہ بن مغفل مزنی ایک بڑے صحابی ہیں، کنیت ابو سعید اور ابو زیاد تھی، بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، غزوۂ تبوک کے موقع پر جن لوگوں کا رو رو کر برا حال تھا، ان میں سے ایک یہ بھی تھے، درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں بھی شامل رہے، ان دس لوگوں میں بھی شامل رہے جن کو عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے بصرہ کے لوگوں کو فقہ سکھانے کے لیے بھیجا تھا، آپ تستر شہر کے دروازے سے داخل ہونے والے پہلے شخص بھی ہیں، سنہ 57ھ میں وفات پائی۔
عثمان بن ابوالعاص بن بشر ثقفی ایک بڑے صحابی ہیں، ثقیف کے وفد کے ساتھ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے پاس مدینہ آئے اور پورا وفد مسلمان ہو گیا۔ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے طائف بھیجا تھا، آپ کی حیات، ابوبکر کے دور خلافت اور عمر فاروق کے دور خلافت کے دو سال تک وہیں رہے، پھر عمر فاروق نے ان کو سنہ 15ھ میں عمان اور بحرین میں مقرر کر دیا، بعد میں بصرہ میں رہنے لگے اور معاویہ کے دور خلافت میں وہیں وفات پائی، سنہ وفات کچھ لوگوں نے 50ھ بتایا ہے اور کچھ لوگوں نے 51ھ۔
خلیفۂ راشد، امیر المؤمنین عثمان بن عفان بن ابوالعاص قرشی اموی بالکل ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شامل تھے، ان سے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے اپی بیٹی رقیہ کا نکاح کرایا تھا، جب رقیہ کا انتقال ہو گیا تو ان سے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کا نکاح کر دیا، ان کا لقب ذوالنورین تھا،ان دس لوگوں میں شامل تھے جن کو جنت کی خوش خبری دی گئی تھی، ان چھ لوگوں میں بھی شامل تھے جن سے اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- وفات کے وقت راضی تھے،ان کے بارے میں اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے فرمایا ہے : "کیا میں ایک ایسے شخص نہ حیا کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہیں؟" اسی طرح فرمایا تھا : "اسے ایک بلوی میں ہونے والی شہادت کے بعد جنت کی خوش خبری دے دو۔" ان کے کئی بڑے بڑے کارنامے ہيں، جو ان کی فضیلت اور اسلام کی نصرت پر دلالت کرتے ہيں، مثلا انھوں نے دونوں ہجرت کی، پہلی حبشہ کی طرف اور دوسری مدینے کی طرف، مالی تنگی کے وقت تبوک کی جانب روانہ ہونے والے لشکر کو ساز و سامان فراہم کیا، بئر رومہ کھدوایا اور مسلمانوں کے لیے صدقہ کر دیا، مسجد نبوی کی توسیع کی، ان کے عہد میں ہی قرآن کو جمع کیا گیا، بڑے پیمانے پر فتوحات حاصل ہوئیں اور دور دراز علاقوں کے ممالک اسلام کے زیر نگیں آ گئے۔
عثمان بن مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن جمح جمحی، ابن اسحاق کہتے ہیں : تیرہ لوگوں کے بعد مسلمان ہوئے، انھوں نے اور ان کے بیٹے سائب نے حبشہ کی جانب ہجرت کرنے والی ایک جماعت کے ساتھ پہلی ہجرت کی، سعد بن ابو وقاص سے مروی ہے، وہ کہتے ہيں : اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- نے عثمان بن مظعون کے دنیا سے کنارہ کش ہو کر پوری طرح عبادت میں لگ جانے کی درخواست کو ٹھکرا دیا تھا۔ اگر آپ اجازت دے دیتے، تو ہم خصی ہو جاتے، وہ مدینے میں وفات پانے والے اور بقیع میں دفن ہونے والے پہلے مہاجر تھے، عائشہ -رضی اللہ عنہا- کہتی ہیں : جب عثمان بن مظعون کی وفات ہو گئی تو اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو روتے ہوئے بوسہ دیا،اس وقت آپ کی دونوں آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ اسی طرح جب آپ کے بیٹے ابراہیم کی وفات ہوئی تو آپ نے کہا : "وہ ہمارے سلف صالح عثمان سے جا ملا۔" سنہ 2ھ میں وفات پائی۔
ابو عبداللہ عروہ بن زبیر بن عوام قرشی اسدی، امام اور تابعی تھے۔ سنہ 23ھ کو پیدا ہوئے، فقہائے سبعہ میں سے ایک تھے، مدینے کے فقہا اور علم و فضل کے مالک تابعین میں شمار ہوتے تھے،کم سنی کی وجہ سے اپنے والد سے کچھ ہی حدیثیں روایت کر سکے ہیں، اپنی ماں اسما بنت ابو بکر صدیق اور خالہ ام المؤمنین عائشہ سے حدیث روایت کی ہے، عائشہ -رضی اللہ عنہا- کے ساتھ رہے اور ان سے تفقہ حاصل کیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں : "میں کسی ایسے شخص کو نہيں جانتا جو عروہ بن زبیر سے زیادہ علم والا ہو۔" سنہ 94ھ میں وفات پائی۔
ابو مسعود عقبہ بن عمرو بن ثعلبہ بدری انصاری ایک بڑے صحابی ہیں، بیعت عقبہ میں شریک رہے، بدر میں شریک ہوئے یا نہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ غزوۂ بدر میں شریک نہيں تھےتو ان کو بدری اس لیے کہا گيا کہ مقام بدر کے ایک چشمے کے پاس اترے تھے، بڑی تعداد میں حدیثیں روایت کیں،ذوعلم صحابہ میں شمار ہوتے ہیں، سنہ 39 یا 40ھ میں فوت ہوئے۔
ابوالحسن علی بن ابوطالب ہاشمی قرشی ایک بڑے صحابی، چوتھے خلیفۂ راشد، بالکل ابتدائی دور اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں سے ایک، جنت کی خوش خبری حاصل کرنے والے دس خوش نصیب لوگوں میں سے ایک اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے بچے تھے۔ دس سال کی عمر میں مسلمان ہوئے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے چچیرے بھائی، آپ کی بیٹی فاطمہ -رضی اللہ عنہا- کے شوہر اور آپ کے نواسوں و جنت کے دونوں سردار حسن اور حسین کے والد تھے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو ان سے بڑی محبت تھی، آپ کی وفات ہوئی تو آپ ان سے راضی ہوئے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے ان کو وہی حیثیت دی تھی جو ہارون کو موسی کے یہاں حاصل تھی، آپ نے ان کے بارے میں کہا تھا : "کیا تم اس بات سے خوش ںہیں ہو کہ میرے یہاں تمھاری حیثیت وہی رہے جو موسی کے یہاں ہارون کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟" (صحیح بخاری اور صحیح مسلم)۔ اسی طرح ام سلمہ -رضی اللہ عنہا- کہتی ہیں : میں گواہی دیتی ہوں کہ میں نے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کو کہتے ہوئے سنا ہے : "جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، اس نے اللہ سے محبت کی، اس کے برخلاف جس نے علی سے نفرت کی اس نے مجھ سے نفرت کی اور جس نے مجھ سے نفرت کی اس نے اللہ عز و جل سے نفرت کی۔" سنہ 40ھ میں شہید کر دیے گئے۔
ابو بکر محمد بن سیرین بصری انصاری، انصاری کی نسبت آزادی سے غلامی کی بنیاد پر ہے، امام اور خواب کی تعبیر کے باب میں علامہ تھے، ان کے والد سیرین صحابئ رسول انس بن مالک کے غلام تھے، جن کو انھوں نے آزاد کر دیا، عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- کی خلافت کے دو سال باقی تھے کہ ان کی ولادت ہوئی، خواب کی تعبیر سے متعلق ایک کتاب کی نسبت ان کی جانب کی جاتی ہے،لیکن یہ نسبت صحیح نہيں ہے، کیوںکہ پہلی تین صدیوں میں جتنے لوگوں نے اس کا تذکرہ لکھا ہے ان میں سے کسی نے اس بات کا بالکل ذکر نہيں کیا ہے کہ خواب کی تعبیر کے تعلق سے ان کی کوئی کتاب بھی ہے، حالاںکہ سب نے اس باب میں ان کی مہارت کا ذکر کیا ہے، کچھ مصادر میں ان کی تعبیر کے کچھ نمونے بھی موجود ہیں، لیکن اس بات کا کوئی ذکر نہيں ہے کہ یہ نمونے ایک کتاب سے لیے گئے ہیں جو انھوں نے ترتیب دی ہے یا املا کرائی ہے، یہاں اس بات کا بھی دھیان رہے کہ ان سے جو تعبیریں منقول ہیں وہ اس کتاب میں درج تعبیروں سے کم ہيں، انھوں نے سنہ 110ھ میں وفات پائی۔
محمد بن محمد بن محمد طوسی، ابو حامد غزَّالی۔ غزَّالی کو ابن السمعانی، ابن اثیر، نووی، ابن خلکان، ابن دقیق العید، ذہبی، سبکی، سخاوی اور مرتضی زبيدی نے زا کی تشدید کے ساتھ ضبط کیا ہے اور یہی درست بھی ہے، حالاں کہ اس سلسلے میں کچھ اختلاف بھی ہے، سنہ 450ھ میں پیدا ہوئے، اصولی اور شافعی فقیہ ہیں، انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ جیسے "إحياء علوم الدين"، "المستصفى في أصول الفقه" فقہ میں "الوجيز"، "الوسيط" اور "البسيط" وغیرہ، پہلے فلسفہ کی باریکیوں میں الجھے اور بعد میں رجوع کر لیا اور اس کی تردید بھی کی، بعد ازاں علم کلام کی باریکیوں میں الجھے اور اس کے اصول و مقدمات کا گہرا علم حاصل کیا، لیکن جب اس کی بھی کج رویاں، داخلی اختلافات اور اس کے علم برداروں کی بحثیں سامنے آئيں تو اس سے بھی رجوع کر لیا، جن دنوں انھوں نے فلسفیوں کی تردید کی تھی اور ان کو لاجواب کر دینے کی وجہ سے ان کو حجۃ الاسلام کہا گیا تھا ان دنوں وہ متکلم تھے، پھر باطنی مسلک کے پیروکار بن گئے اور ان کے علوم حاصل کیے، لیکن اس سے بھی رجوع کر لیا باطنی مسلک کے عقائد کے بطلان کو سامنے لانے کے ساتھ ساتھ نصوص اور احکام کے ساتھ ان کے کھلواڑ کو واضح کیا، اس کے بعد تصوف کی طرف مائل ہوئے، ان کے بارے میں ابن الصلاح کہتے ہیں : "ابو حامد کے بارے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں اور انھوں نے بھی بہت سی باتیں کہی ہیں۔ جہاں تک ان کتابوں (ان حق مخالف کتابوں) کی بات ہے، تو یہ قابل توجہ نہیں ہیں، رہی بات خود ان کی، تو ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے گی اور ان کے معاملے کو اللہ کے حوالے کر دیا جائے گا۔" ذہبی کہتے ہیں : "انھوں نے فلاسفہ کی مذمت میں "التھافت" نامی کتاب لکھ کر ان کا کچا چٹھا سامنے لانے کا کام کیا ہے، کچھ جگہوں پر ان کی موافقت بھی کی ہے، یہ سمجھ کر کہ یہ حق ہے یا ملت کے موافق ہے، ان کے پاس آثار کا علم نہيں تھا، سنت نبویہ پر بھی، جسے عقل پر فوقیت حاصل ہے ان کی پکڑ نہیں تھی، ان کو "رسائل اخوان الصفا" کے مطالعے سے بڑی دل چسپی تھی، جو کہ درحقیقت ایک لاعلاج بیماری اور زہر ہلاہل ہے، ابو حامد اگر بڑے ذہین و فطین اور بڑے مخلص نہ ہوتے تو ضائع ہو جاتے، لہذا ان کی ان کتابوں سے بہت زیادہ دور رہو اور اپنے دین کو اوائل کے شبہات سے بچاؤ،ورنہ ذہنی کشمکش کے شکار ہو جاؤگے۔" ابو بکر بن عربی کہتے ہیں : "ہمارے شیخ ابو حامد فلاسفہ کو نگل گئے اور اس کے بعد ان کی الٹی کرنا چاہا، لیکن کر نہيں سکے۔" جب کہ قاضی عیاض کہتے ہیں : "شیخ ابو حامد غلط سلط معلومات فراہم کرنے والے بری کتابوں کے مصنف ہیں، تصوف میں غلو سے کام لیا اور اہل تصوف کی حمایت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کے داعی بن گئے، اسی کے سلسلے میں اپنی مشہور کتاب 'الاحیا' لکھی جس کے کئی مقامات پر ان کی گرفت ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ان سے بدظن ہوئے ہیں، اللہ ان کے باطن سے زیادہ واقف ہے۔ ہمارے یہاں سلطان کا حکم اور علما کا فتوی اسے جلا دینے اور اس سے دور رہنے کا آیا، جس کی تعمیل کی گئی۔" اور ابن الجوزی کہتے ہیں : "ابو حامد نے 'الاحیاء' لکھی اور ان جانے میں اسے باطل حدیثوں سے بھر دیا، اس میں انھوں نے کشف کے بارے میں گفتگو کی اور فقہ کے قانون کے دائرے سے باہر چلے گئے۔" سنہ 505ھ میں وفات پائی۔
امیر المؤمنین ابو عبدالرحمن معاویہ بن ابو سفیان صخر بن حرب بن امیہ قرشی اموی ایک بڑے صحابی ہیں، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے عمرۃ القضا کے وقت ہی اپنے والد سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا، لیکن اپنے والد کے ڈر سے اللہ کے نبی کے پاس آ نہيں سکے۔ انھوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اظہار فتح مکہ کے دن کیا، وہ وحی لکھنے کا کام کرنے والے لوگوں میں شامل تھے، جب ابو بکر صدیق خلیفہ ہوئے تو ان کو ان کے بھائی یزید بن ابوسفیان کی امارت میں ایک لشکر کی قیادت سونپی، چنانچہ صیدا، عرقہ، جبیل اور بیروت جیسے شہر انہی کی سربراہی میں فتح ہوئے۔ جب عمر بن خطاب -رضی اللہ عنہ- خلیفہ ہوئے تو ان کو اردن کا امیر بنا دیا، بعد میں یزید ابو سفیان کے انتقال کے بعد ان کو دمشق کا امیر بنا دیا، بعد ازاں عثمان بن عفان -رضی اللہ عنہ- نے ان کو پورے علاقۂ شام کا گورنر بنا دیا اور مختلف علاقوں کے امیروں کو ان کے ماتحت کر دیا، عثمان بن عفان -رضی اللہ عنہ- کے قتل کے بعد جب علی -رضی اللہ عنہ- خلیفہ بنے تو ان کے اور معاویہ کے درمیان اس بات میں اختلافات ابھر کر سامنے آئے کہ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد کس طرح کے اقدامات کرنے ضروری ہيں، اختلافات کافی آگے بڑھ گئے، یہاں تک ابن ملجم خارجی نے علی -رضی اللہ عنہ- کا قتل کر دیا اور ان کے بیٹے حسن نے خلافت سنبھالی، لیکن سنہ 41ھ میں حسن بن علی، ان کے اور معاوجہ کے درمیان ہونے والے ایک قرار کے مطابق حسن خلافت سے دست بردار ہوکر اسے معاویہ کے حوالے کر دیا، علی -رضی اللہ عنہ- کے بارے میں دو قسم کے لوگ گمراہ ہوئے ہيں، کچھ لوگوں نے ان سے بغض رکھنے، نفرت کرنے اور ان سے لوگوں کو دور کرنے میں غلو سے کام لیا ہے، حد یہ ہے کہ ان پر کفر و نفاق کا حکم بھی لگایا ہے، ابن حزم کہتے ہیں : "اس کے بعد حسن سے بیعت کی گئی اور پھر انھوں نے خلافت معاویہ کے حوالے کر دی، جب کہ بچے ہوئے صحابہ میں کئی لوگ ایسے تھے، جو بلا اختلاف دونوں سے اچھے تھے، ان میں سے کچھ لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا تھا اور جنگ کی تھی، اس کے باوجود شروع سے آخر تک سب نے معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور ان کی امامت کو درست مان لیا، دراصل یہ ایک یقینی اجماع ہے، اس اجماع کے بعد کہ افضل کے رہتے ہوئے مفضول کی امامت صحیح ہے، یہ ایک یقینی بات ہے، اس میں کسی قسم کے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے۔" سنہ 60ھ میں وفات پائی۔
معقل بن یسار بن عبداللہ مزنی بصری ایک بڑے صحابی ہیں، صلح حدیبیہ سے پہلے مسلمان ہوئے اور بیعت رضوان میں شامل رہے، ابو بکر -رضی اللہ عنہ- کے عہد میں ہونے والی ردت کی جنگوں میں شریک ہوئے، سعد بن ابو وقاص کی قیادت میں فارس کو فتح کرنے والے لشکر کے ساتھ رہے اور عمر فاروق کے زمانے میں ہونے والے دیگر معرکوں میں بھی شامل رہے، عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے ان کو بصرہ کی امارت سونپی تھی، لہذا وہیں رہنے لگے اور معاویہ کی خلافت کے آخری دور میں وفات پائی۔
معیقیب بن ابو فاطمہ دوسی ایک بڑے صحابی ہیں۔ مکہ میں ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے، حبشہ کی جانب ہونے والی دوسری ہجرت میں شامل رہے اور پھر مدینے کی جانب ہجرت کی، ابو بکر -رضی اللہ عنہ- نے ان کو فئ کا مال جمع کرنے کی ذمے داری دی تھی، عمر فاروق کے دور میں بیت المال کے ذمے دار رہے،عثمان -رضی اللہ عنہ- کی خلافت کے آخری دور میں فوت ہوئے، جب کہ کچھ لوگوں کے مطابق سنہ 40 ھ میں علی -رضی اللہ عنہ- کی خلافت کے آخری دور میں وفات پائی۔
مغیرہ بن شعبہ بن ابو عامر ثقفی ایک بڑے صحابی ہیں، بڑے بہادر اور فہم و فراست کے مالک صحابی تھے، جنگ خندق کے سال مسلمان ہوئے اور اس کے بعد کی جنگوں میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کے ساتھ شریک رہے، بیعت رضوان میں بھی شامل تھے، ان کو'مُغِيرَةُ الرأي' یعنی فہم و فراست کے مالک مغیرہ کہا جاتا تھا،بڑے چالاک انسان تھے، معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے دور خلافت میں فوت ہوئے۔
مقداد بن اسود کندی یعنی مقداد بن عمرو بن ثعلبہ بن مالک بن ربیعہ بن عامر بن مطرود بہرانی، کچھ لوگوں نے حضرمی بھی کہا ہے۔ ان کی پرورش اسود بن عبد یغوث کے یہاں ہوئی تھی، اس لیے ان کی نسبت اسی کی جانب کر دی گئی، ایک بڑے صحابی ہیں، ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے، اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی چچیر ی بہن ضباعہ بن زبیر بن عبدالمطلب سے شادی کی، دونوں ہجرت کرنے والوں میں شامل رہے، بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں شریک رہے، بدر کے دن گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کرنے والوں میں سے ایک تھے، سنہ 33ھ میں فوت ہوئے۔
نعمان بن بشیر بن سعد بن ثعلبہ انصاری خزرجی ایک بڑے صحابی ہیں، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی وفات سے آٹھ سال پہلے پیدا ہوئے،بڑے شریف، سخی اور شاعر تھے، معاویہ -رضی اللہ عنہ- کے امیروں میں سے تھے، ایک مدت کوفہ کے گورنر رہے۔ پھر فضالہ کے بعد دمشق کی مسند قضا سنبھالی، پھر حمص کے گورنر بنے، بیرین نامی بستی میں قتل کر دیے گئے، جب انھوں نے حمص والوں کو عبداللہ بن زبیر سے بیعت کرنے کی دعوت دی تو خالد بن خلی نام کے ایک شخص نے جنگ مرج راہط کے بعد سنہ 64ھ کے آخر میں ان کو قتل کر دیا۔
ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی کوفی، امام اور فقیہ ملت تھے، بڑے متقی اور پرہیزگار بھی تھے، حرام کاموں سے بہت زیادہ روکنے والے تھے، ان کے لیے دنیا اور ڈھیر ساری دولت کی پیش کش ہوئی، لیکن انھوں ان سب کو پس پشت ڈال دیا، حد تو یہ ہے کہ منصب قضا یا بیت المال کی ذمے داری سنبھال لیں، اس کے لیے کوڑے لگائے گئے، لیکن انکار کر دیا۔ ذہبی کہتے ہیں : "ان کی سیرت الگ سے دو جلدوں میں لکھی جا سکتی ہے، اللہ ان سے راضی ہو اور ان پر رحم کرے۔" امام احمد ان کے بارے میں کہتے ہيں : "ابو حنیفہ علم، تقوی، زہد اور آخرت کو ترجیح دینے کے معاملے میں اس مقام پر فائز تھے جہاں تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی، انھیں اس بنا پر کوڑے لگائے گئے کہ منصور کا دیا ہوا عہدہ سنبھال لیں، لیکن انھوں اسے گوارا نہيں کیا،ان پر اللہ کی رحمت برسے اور ان کو اللہ کی رضامندی حاصل ہو۔" امام شافعی کہتے ہیں : "امام مالک سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے ابو حنیفہ کو دیکھا ہے اور ان سے مناظرہ کیا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہاں! میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے کہ اگر پتھر کے اس ستون کو دیکھ کر بتائے کہ یہ سونے کا ہے تو اسے دلیل سے ثابت کر دے۔" سنہ 150ھ میں وفات ہوئی۔
ام المؤمنین ام سلمہ ہند بنت ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ مخزمیہ، ان سے اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- نے شوال سنہ 4ھ میں شادی کی۔ کچھ لوگوں نے اس سے پہلے شادی کی بات کہی ہے۔ ابتدائی دور میں ہجرت کرنے والی خواتین میں شامل تھیں۔ فقہا صحابیات میں شمار ہوتی تھیں۔ بڑی حسین و جمیل تھیں۔ لگ بھگ 90 سال باحیات رہیں۔ سب سے آخر میں وفات پانے والی ام المؤمنین تھیں۔ سنہ 59 یا 64ھ کو فوت ہوئيں، اس سلسلے میں کچھ اور بھی اقوال ہيں۔
ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزی بن قصی قرشی اسدی اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم- کی بیوی خدیجہ -رضی اللہ عنہا- کے چچازاد بھائی تھے، ان کو اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی صحبت نصیب ہوئی یا نہيں، اس کے بارے میں اختلاف ہے، طبری، بغوی، ابن قانع اور ابن السکن جیسے کچھ علما نے ان کا ذکر صحابہ میں کیا ہے، جب کہ کچھ علما کا کہنا ہے کہ وہ صحابی نہيں ہیں، بلکہ وہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- پر ایمان لائے اور انہی دنوں میں ان کا انتقال ہو گیا، جن دنوں کچھ وقت کے لیے وحی کا سلسلہ بند تھا، ابن حجر کہتے ہیں : "اس حدیث کا ظاہر یہ بتاتا ہے کہ انھوں نے نبوت کا اقرار تو کیا، لیکن اس سے پہلے کہ اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- لوگوں کو اسلام کی جانب بلاتے، انتقال کر گئے، اس طرح وہ بحیرا راہب کی طرح ہوئے، ان کے حق میں اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ و سلم- کی صحبت ثابت کرنا محل نظر ہے۔" جب کہ کچھ علما نے اختلاف بیان کرنے کے بعد توقف کیا ہے، کرمانی کہتے ہیں : "اگر آپ کہیں کہ روقہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا ان کو مومن مانا جائے گا؟ تو میں کہوں گا : اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے کہ وہ عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے، جہاں ہمارے نبی پر ایمان لانے کی بات ہے، تو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بات واضح نہيں ہو پاتی ہے کہ ان کے انتقال کے وقت عیسی -علیہ السلام- کا دین منسوخ ہو چکا تھا یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس وقت عیسی -علیہ السلام- دین منسوخ ہو چکا تھا تو زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ایمان تصدیق کرنے کا نام ہے اور انھوں آپ کی تصدیق کی تھی، ساتھ ہی کسی ایسی بات کا ذکر بھی نہیں ملتا جو اس تصدیق کے منافی ہو۔" راجح بات یہ ہے کہ وہ موحد مومن تھے۔ واللہ اعلم بالصواب، لیکن ان کا شمار صحابہ میں نہیں ہوگا، کیوںکہ ان کا انتقال نبوت کے بعد اور رسالت سے پہلے کی اس مدت میں ہوگیا تھا جب وحی کا سلسلہ بند تھا۔
عبداللہ بن حذافہ بن قیس قرشی سہمی ایک بڑے صحابی ہیں، ابتدائی دور میں اسلام قبول کرنے والے لوگوں میں شامل تھے، کہا جاتا ہے کہ غزوۂ بدر میں شریک رہے، ان کی ایک فضیلت یہ ہے کہ عمر فاروق -رضی اللہ عنہ- نے روم کی جانب ایک لشکر روانہ کیا، جس میں عبداللہ بن حذافہ بھی شامل تھے، اس بیچ رومیوں نے ان کو قید کر لیا اور روم کے بادشاہ نے ان سے کہا : تم نصرانی بن جاؤ، میں تم کو اپنی بادشاہت میں شریک کر لوں گا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا، پھر بادشاہ کے حکم سے ان کو سولی کی لکڑی سے باندھ دیا گیا اور ان پر تیر چلانے کا حکم دیا گيا، لیکن جب اس سے وہ نہيں گھبرائے تو ان کو اتارا گیا اور ایک ہانڈی میں پانی ڈال کر اسے اچھی طرح کھولایا گیا، پھر اس میں ایک قیدی کو ڈال دیا گیا، دیکھتے ہی دیکھتے اس کی ہڈیاں چمکنے لگیں، پھر حکم دیا گیا کہ اگر حذافہ نصرانیت قبول نہ کریں تو ان کو اس کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جائے،جب ان کو ہانڈی کے پاس لے جایا گیا تو وہ رو پڑے، باشاہ نے ان کو واپس لانے کا حکم دیا اور رونے کا سبب پوچھا، تو انھوں نے جواب دیا : میرے دل میں اس تمنا نے کروٹ لی کہ کاش میرے پاس سو جان ہوتی اور ہر ایک اسی طرح اللہ کی راہ میں کھولتے ہوئے پانی میں ڈالا جاتا، یہ سن کر اس نے بڑا تعجب کیا اور کہا کہ اگر تم میرے ماتھے کو چوم لو، تو میں تم کو چھوڑ دوں گا۔ اس کی اس پیش کش پر انھوں نے کہا کہ کیا تمام مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دوگے؟ چنانچہ بادشاہ نے ہاں میں جواب دیا، تو انھوں نے اس کے ماتھے کو چوما اور بادشاہ نے ان کو چھوڑ دیا۔ بالآخر وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ عمر -رضی اللہ عنہ- کے پاس آئے، تو وہ کھڑے ہوئے اور ان کے سر کا بوسے لیا۔ سنہ 33ھ میں وفات پائی
ابو عبدالرحمن عبداللہ بن عمر بن خطاب قرشی عدوی۔ امام، قابل تقلید شخصیت اور بڑے صحابی، بعثت کے دو سال بعد پیدا ہوئے،بچپن میں اپنے والد کے ساتھ مسلمان ہوئے،بلوغت سےپہلے ہی اپنے والد کے ساتھ ہجرت کی، احد کے دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے جنگ میں شامل نہیں ہو سکے،لہذا ان کا پہلا غزوہ خندق ہے، درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں رہے، اللہ کے نبی -صلی اللہ علیہ سلم- کےتمام حرکات و سکنات کی پیروی کرتھے تھے، تقوی شعار، زاہد، سخی، شریف النفس، فقیہ اور دین دار تھے۔ فتنوں سے دور رہتے تھے، کسی بھی فتنے میں شریک نہیں ہوئے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور صدقہ کرنے کے معاملے میں بہت آگے تھے، بڑی تعداد میں حدیث روایت کی، اس معاملے میں ابو ہریرہ -رضی اللہ عنہ- کے بعد ان کا ہی مقام آتا ہے، سنہ 73ھ میں وفات پائی۔
ابونجید عمران بن حصین بن عبید بن خلف خزاعی ایک بڑے صحابی ہیں، غزوۂ خیبر کے سال فوت ہوئے، کئی غزووں میں شریک بھی رہے، فتح مکہ کے دن قبیلہ خزاعہ کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے، کئی حدیثیں بھی روایت کی ہیں، بڑے علم و فضل اور فقہ و فراست کے مالک صحابی تھے، بصرہ کے قاضی رہے، ابن سیرین ان کے بارے میں کہتے ہيں : بصرہ آنے والے سب سے افضل صحابی عمران اور ابوبکرہ ہیں، حسن قسم کھا کر کہا کرتے تھے کہ بصرہ میں کسی ایسے آدمی نے قدم نہیں رکھا جو ان کے حق میں عمران سے اچھا ہو، انتقال سنہ 52ھ میں ہوا، کچھ لوگوں نے 53ھ بھی کہا ہے۔
محمد طاہر بن محمد بن محمد طاہر بن محمد کن محمد شاذلی بن عبدالقادر بن محمد (میم کے فتحے کے ساتھ) بن عاشور،علم شریعت اور زبان و ادب جیسے متعدد علوم و فنون میں مہارت اور نمایاں حیثیت رکھتے تھے، فرانسیسی زبان بھی بڑی اچھی طرح جانتے تھے، عربی زبان اکیڈمی دمشق و قاہرہ کے رکن تھے، تدریس، قضا اور افتا جیسے کئی نمایاں علمی اور ادارہ جاتی مناصب پر فائز رہے، جامعہ زیتونہ کے شیخ بھی بنائے گئے، دسیوں کتابیں لکھیں، جیسے "التحرير والتنوير" کے نام سے لکھی گئی ان کی تفسیر اور "مقاصد الشريعة" وغیرہ، ان کے بارے میں ان کے دوست شیخ محمد خض حسین کہتے ہیں : "استاذ بڑے فصیح و بلیغ اور زبان و بیان کے ماہر انسان تھے، وہ علمی مہارت اور بالغ نظری کے ساتھ ساتھ صاف ستھرا ذوق اور زبان و ادب میں وسیع واقفیت رکھتے تھے... میں ان کی بات کے لہجے میں سچائی دیکھتا تھا، ... ان کا حوصلہ ہمیشہ اعلی اقدار کی جانب مائل بہ پرواز دیکھتا تھا، ان کے اندر تھکے بغیر کام کرنے کا جذبہ دیکھتا تھا اور دین کے واجبات و آداب کی پابندی دیکھتا تھا ... خلاصۂ کلام ایں کہ میں ان کے روشن اخلاق اور روادار شخصیت سے ان کی علمی عبقریت سے کچھ کم متاثر نہيں تھا۔" سنہ 1393ھ میں وفات پائی۔
محمد امین بن محمد مختار بن عبدالقادر بن محمد جکنی شنقیطی، سنہ 1325ھ میں پیدا ہوئے، کبار علما کمیٹی کے رکن، مسجد نبوی کے مدرس اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی کمیٹی رکن تھے، انھوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں سے کچھ اس طرح ہیں : "أضواء البيان لتفسير القرآن بالقرآن"، "آداب البحث والمناظرة"، "مذكرة في أصول الفقه" اور "دفع إيهام الاضطراب عن آي الكتاب"۔ ان کی ساری کتابیں 19 جلدوں میں "آثار الشيخ العلامة محمد الأمين الشنقيطي" کے نام سے چھپ چکی ہیں، سنہ 1393ھ میں فوت ہوئے۔