کلام کی تفسیر کرنا اور اس کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا۔
وہ اوراق جن میں قرآن کریم کی تمام آیات اور سورتوں کو اسی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہو، جس پر عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں امت کا اجماع ہو گیا تھا۔
قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی 255 ویں آیت کریمہ کا نام آیۃ الکرسی ہے۔
قرآنی آیات کا وہ مخصوص مجموعہ جس کا آغاز و اختتام ہو، جو کسی مخصوص نام سے موسوم ہو اور جس میں کم از کم تین آیتیں ہوں۔
اللہ کے فضل کی چاہت اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے اس کی اطاعت گزاری کے ذریعے یا اس سے سوال کر کے اس کا قرب حاصل کرنا۔
تجوید کے معنی خوب صورت اور عمدہ بنانے کے ہیں۔ اس کے کچھ دیگر معانی ہیں : مضبوط بنانا، محکم کرنا اور آرائش کرنا۔
ترتیل کے لغوی معنی ہیں ترتیب دینا اور نظم و نسق کرنا۔ یہ لفظ مہلت دینا، بنا جلد بازی کیے اطمینان سے کوئی کام کرنا، واضح کرنا، خوب صورت بنانا اور عمدہ بنانا ہیں۔
شکر : کسی کے فضل و کرم اور احسان کا تذکرہ کرنا اور اس کا چرچا کرنا۔ شکر کسی نعمت اور احسان کے مقابلے میں ہی ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی ظاہر ہونے اور کھولنے کے ہیں۔ اسی سے تعریف اور اعتراف کو شکر کہتے ہیں، کیوں کہ یہ نعمت کا اظہار ہے۔ جب کہ اس کی ضد کفر، انکار اور نہ ماننا ہے۔
یہ سورۂ فاتحہ کا ایک نام ہے جو مصحف میں سب سے پہلے لکھا جاتا ہے اور نماز میں سب سے پہلے پڑھا جاتا ہے۔
اتقان : کسی چیز کو مضبوط کرنا، عمدہ بنانا، درست کرنا اور حفاظت کرنا۔
آیت : علامت ونشانی۔ اسی سے قرآن کی آیت کو آیت کہا گیا، اس لیے کہ یہ پہلے والے کلام کے بعد آنے والے کلام سے الگ ہونے کی علامت ہے۔ اس کا اطلاق حروف کے مجموعے پر بھی ہوتا ہے۔ اس کے یہ معانی بھی آتے ہیں : معجزہ، دلیل، برہان، عجیب معاملہ اور عبرت۔
وہ چیز جسے آدمی اپنے اوپر واجب اور لازم کر لے۔
سکینت: غور و فکر کرنا، اطمینان سے کام کرناا اور عجلت سے کام نہ لینا۔ اس لفظ کے اصل معنی ثبات و استقرار کے ہیں۔ سکینت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: وقار اور اطمینان۔ کہا جاتا ہے: ”سَكَنَ القَلْبُ“ یعنی دل مطمئن ہو گیا۔
کسی شے کو نکالنا۔ "استنباط" کا لفظ دراصل "النَبط" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: کسی شے کا مخفی ہونے کے بعد ظاہر ہو جانا۔ کہا جاتا ہے ’’نَبَطَ المَاءُ يَنْبُطُ نَبْطًا‘‘ یعنی پانی پھوٹ کر سطح زمین پر ظاہر ہو گیا۔ "استنباط" کے معنی نتیجہ نکالنے اور دریافت کرنے کے بھی آتے ہیں۔
کسی شے کا نام لینا یا اسے شروع میں رکھنا۔ "تسميہ" کا اطلاق مقرر اور متعین کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ جب کہ "مسمی" کے معنی ہیں: معلوم و معین شے۔ لفظ "اسم" دراصل "السُّمُوّ" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ جب کہ ایک قول کی رو سے وہ "السِّمَة" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی علامت کے ہیں۔
لحن کے معنی خطا اور ترک صواب ہے۔ لحن کے اصل معنی کسی چیز کو اس کے رخ سے ہٹا دینے کے ہیں۔ لحن کے کچھ دیگر معانی ہیں: آواز، کلام کو حسین بنانا اور اور جھومنا۔
الـمُعَوِّذَتَانِ، مُعَوِّذَةٌ کا تثنیہ ہے۔ یعنی حفاظت کرنے والی اور برائی سے بچانے والی دو سورتیں۔ "التَّعْوِيذُ" کے معنی حفاظت کرنے اور بچانے کے ہیں۔ جب کہ "العَوْذُ" کے اصل معنی ہیں : پرہیز کرنا، ناپسندیدہ چیز سے بچنا اور اللہ کی پناہ لینا۔
وہ شے، جو بہت سے ایسے اجزا پر مشتمل ہو، جو واضح حدود کے ساتھ ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہوں۔ "فصل" کے اصل معنی ہیں : ایک شے کو دوسری شے سےالگ کرنا۔ "المفصل" کے یہ معانی بھی آتے ہیں : واضح طور پر بیان شدہ، ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا، حصوں میں تقسیم کیا ہوا اور حد بندی شدہ۔
یہ مکہ کی جانب منسوب لفظ ہے۔
’اسرائیلیات‘ اسرائیلیة کی جمع ہے اور یہ بنی اسرائیل کی طرف منسوب ہے۔ اسرائیل سے مراد یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ہیں۔ یہ ایک عجمی یعنی غیر عربی کلمہ ہے، جس کے معنی اللہ کے بندے کے ہیں۔ انہی یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔
دوسرے کے لیے مستقبل میں کوئی کام کرنے سے متعلق دی جانے والی اطلاع۔ اس کی ضد وعید اور تہدید یعنی دھمکی ہے۔
اہلِ عرب اور دیگر لوگوں کی قرآنِ کریم کا مقابلہ کرنے سے بے بسی ظاہر کرکے دعوائے رسالت میں نبی ﷺ کی سچائی کو ظاہر کرنا۔
دھمکی۔ یہ لفظ خوف دلانے اور مستقبل میں کسی برے کام کے ہونے کی اطلاع دینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
قران کریم میں آنے والی اللہ کی ثناء يا اس سے حصولِ خير اور دفعِ شر کا سوال۔
ایسے قواعد اور صحیح طریقوں کا مجموعہ جن کی قرآن کریم کے معانی تک پہنچنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔
قرآن و سنت کا دور حاضر کی تجرباتی سائنس کی رسائی سے پہلے ہی ایسے زمانے میں کسی سائنسی حقیقت یا کائناتی مظہر کی خبر دینا جس زمانے میں قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے کسی بھی انسان کے لیے اس حقیقت تک پہنچنے کا کوئی امکان نہ رہا ہو۔
قرآنِ مجید کا یہ اعلان کرنا کہ پوری انسانیت فقط ایک ایسی سورت بھی لانے سے قاصر ہے جو قرآن کے الفاظ و معانی اور اس کے اسلوب وغیرہ کا مقابلہ کر سکے۔
اللہ تعالی کا قرآن پاک کو ایک ہی دفعہ میں آسمان دنیا پر اتار دینا اور پھر جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے جب وہ اسے اللہ سے سن چکے ہوتے ہیں محمد ﷺ پر اتارنا۔
روشن اور کھلى ہوئی آیتیں جن کا مطلب کسی سے مخفی نہیں ہوتا ۔
اس کا اطلاق سورہ فاتحہ پر ہوتا ہے جو کہ سات آیتوں پر مشتمل ہے ۔
وہ علم جو قرآن سے متعلق مباحث اور علوم پر مشتمل ہوتا ہے جو قران سمجھنے اور اس سے فوائد کے استخراج میں معاون ہوتے ہیں اور قرآن سے ہٹ کر بذاتِ خود ان کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
’قراءاتِ عشرہ‘ سے مراد وہ متواتر و مشہور قرأتیں ہیں جو تین اماموں کے اضافہ کے ساتھ ائمہ سبعہ کی طرف منسوب ہوں۔
دو یا اس سے زائد صحیح و غیر متعارض اقوال کا اختلاف جن کے مابین جمع و توفیق کا امکان ہو۔
قرآنِ مجید کے الفاظ کو اس کے نزول کے مطابق پڑھنا اور اس کے معانی و مفاہیم کی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مراد کے مطابق اتباع کرنا۔
کسی شخص کو قرآنِ کریم یا اس کے علاوہ کسی چیز کے پڑھنے پر آمادہ کرنا۔ خواہ ایسا سننے، مذاکرہ کرنے یا پھر تعلیم اور حفظ کی خاطر ہو۔
دماغ ميں معلومات ذخيره كرنے اور کسی بھی وقت انہیں ادا کرنے کی صلاحیت۔
لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے ہٹا کر کسی دوسرے ایسے معنی کی طرف پھیر دینا جو اس سے مختلف ہو۔
وہ صحابہ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر نازل ہونے والے قرآن کی کتابت اور تدوین کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔
قرآن کریم سے ماخوذ فروعی عملی مسائل۔
مفسرین کا کسی آیت یا لفظ کے مفہوم یا حکم یا اس طرح کی کسی اور شے میں اختلاف۔
وہ آیات جن میں مفاہیم کو ذہن کے قریب تر بنانے یا پھر حقائق کی وضاحت وغیرہ کی غرض سے کسی شے کی کسی اور شے یا مختصر انداز میں کسی عمدہ معنی سے تشبیہ پائی جاتی ہے ۔
وہ تین آیتیں جو سورۂ انعام کے آخری ربع (چوتھائی) کى شروعات میں ہیں اور ان کے اندر دس وصیتوں کا تذکرہ ہوا ہے۔
تعلیم کے ارادہ سے معانی میں غور و فکر اور احکام کی رعایت کرتے ہوئے اطمینان کے ساتھ آہستہ آہستہ پڑھنا ۔
قواعدِ تجوید کی رعایت کرتے ہوئے (قرآن پاک کو) جلدی جلدی پڑھنا۔
قرآن کے وہ الفاظ جن کے معانی محتاجِ بیان ہوتے ہیں ۔
ائمہ کے ایک گروہ کے اختیار کردہ نبی ﷺ تک سند کے ساتھ منقول قرآن کریم کی ادائیگی کی کیفیت سے متعلق کچھ مذاہب۔
نون ساکن یا تنوین جب ”با“ کے ساتھ مل کر آئیں تو غنہ اور اخفاء کی رعایت رکھتے ہوئے انہیں بولنے میں حرف میم سے تبدیل کرنا ۔
ہر وہ اچھی آواز جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے۔
دورانِ نماز قرآن کریم کی تلاوت میں ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف یا ایک حرکت کی جگہ دوسری حرکت بدل دینا۔
سورۂ بقرہ کى ایک سو اسّیْ (180) نمبر آیت جس میں اللہ -تعالى- نے وارث کے لیے وصیت کا ذکر کیا ہے۔
انسان کا بعض عربی حروف کو ان کے مخارج سے ادا کرنے پر قادر نہ ہونا، چاہے وہ کسی حرف کو حذف کرکے، یا اسے تبدیل کرکے، یا اسے مکرر پڑھ کر ہو۔
سورہ بقرہ کی ایک سو ستہترویں (177) آیت ہے جس میں اللہ تعالی نےخیر و بھلائی کے طریقوں کی وضاحت فرمائی ہے۔
سورہَ نساء کی چھتیسویں (36) آیت جس میں دس حقوق کا ذکر ہے۔
اس علم میں کسى خاص قرأت کى عربی کے معتمد اسالیب سے مطابقت کو بیان کیا جاتا ہے، نیز مختلف قراءتوں کے مابین موجود فروق کو بھی واضح کیا جاتا ہے۔
قرآن پاک کی تفاسیر میں منقول ہر قسم کی باطل باتیں اور فاسد آراء ۔
یہ قرآنِ کریم کى چند مخصوص سورتوں کے مجموعہ کا نام ہے، جن کى شروعات سورۂ بقرہ سے اور انتہا سورۂ توبہ یا سورۃ یونس پر ہوتى ہے۔
یہ ایک ایسا علم ہے جس میں پورے قرآنِ کریم کى یا کسی ایک سورت کى آیتوں کى تعداد کے تعلق سے بحث کى جاتی ہی، ساتھ ہى آیت کى ابتدا اور انتہا کی نشاندہی بھی کى جاتی ہے۔
جس سال نبی ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ پورا قرآن سنایا۔
وہ مصاحف جنہیں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے لیے جمع کیا اور یہ انہیں سے موسوم ہیں۔