وہ اوراق جن میں قرآن کریم کی تمام آیات اور سورتوں کو اسی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہو، جس پر عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں امت کا اجماع ہو گیا تھا۔
قرآنی آیات کا وہ مخصوص مجموعہ جس کا آغاز و اختتام ہو، جو کسی مخصوص نام سے موسوم ہو اور جس میں کم از کم تین آیتیں ہوں۔
اللہ کے فضل کی چاہت اور اس کے عذاب سے خوف کھاتے ہوئے اس کی اطاعت گزاری کے ذریعے یا اس سے سوال کر کے اس کا قرب حاصل کرنا۔
ترتیل کے لغوی معنی ہیں ترتیب دینا اور نظم و نسق کرنا۔ یہ لفظ مہلت دینا، بنا جلد بازی کیے اطمینان سے کوئی کام کرنا، واضح کرنا، خوب صورت بنانا اور عمدہ بنانا ہیں۔
شکر : کسی کے فضل و کرم اور احسان کا تذکرہ کرنا اور اس کا چرچا کرنا۔ شکر کسی نعمت اور احسان کے مقابلے میں ہی ہوتا ہے۔ اس کے اصل معنی ظاہر ہونے اور کھولنے کے ہیں۔ اسی سے تعریف اور اعتراف کو شکر کہتے ہیں، کیوں کہ یہ نعمت کا اظہار ہے۔ جب کہ اس کی ضد کفر، انکار اور نہ ماننا ہے۔
وہ چیز جسے آدمی اپنے اوپر واجب اور لازم کر لے۔
سکینت: غور و فکر کرنا، اطمینان سے کام کرناا اور عجلت سے کام نہ لینا۔ اس لفظ کے اصل معنی ثبات و استقرار کے ہیں۔ سکینت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: وقار اور اطمینان۔ کہا جاتا ہے: ”سَكَنَ القَلْبُ“ یعنی دل مطمئن ہو گیا۔
اللہ تعالی کا قرآن پاک کو ایک ہی دفعہ میں آسمان دنیا پر اتار دینا اور پھر جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے جب وہ اسے اللہ سے سن چکے ہوتے ہیں محمد ﷺ پر اتارنا۔
وہ شے، جو بہت سے ایسے اجزا پر مشتمل ہو، جو واضح حدود کے ساتھ ایک دوسرے سے بالکل الگ الگ ہوں۔ "فصل" کے اصل معنی ہیں : ایک شے کو دوسری شے سےالگ کرنا۔ "المفصل" کے یہ معانی بھی آتے ہیں : واضح طور پر بیان شدہ، ٹکڑے ٹکڑے کیا ہوا، حصوں میں تقسیم کیا ہوا اور حد بندی شدہ۔
یہ مکہ کی جانب منسوب لفظ ہے۔
دوسرے کے لیے مستقبل میں کوئی کام کرنے سے متعلق دی جانے والی اطلاع۔ اس کی ضد وعید اور تہدید یعنی دھمکی ہے۔
دھمکی۔ یہ لفظ خوف دلانے اور مستقبل میں کسی برے کام کے ہونے کی اطلاع دینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔
وہ صحابہ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے اپنے اوپر نازل ہونے والے قرآن کی کتابت اور تدوین کے لئے مخصوص کر رکھا تھا ۔
سورۂ بقرہ کى ایک سو اسّیْ (180) نمبر آیت جس میں اللہ -تعالى- نے وارث کے لیے وصیت کا ذکر کیا ہے۔
جس سال نبی ﷺ کی وفات ہوئی اس سال آپ ﷺ نے جبریل علیہ السلام کو دو مرتبہ پورا قرآن سنایا۔
وہ مصاحف جنہیں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے لیے جمع کیا اور یہ انہیں سے موسوم ہیں۔