ہر وہ گناہ، جس پر دنیا میں کوئی حد متعین ہو، اس کے بارے میں آخرت میں کوئی وعید سنائی گئی ہو، اس کے نتیجے میں آدمی لعنت یا غضب کا مستحق ہوتا ہو یا پھر اس کے ایمان کے ختم ہو جانے کی بات کہی گئی ہو۔
شعائر اسلام میں سے کسی پر کھلم کھلا عمل کرنا اور اس کی طرف (لوگوں کو) بلانا جبکہ اس پر عمل ناپید ہوگیا ہو۔
حتمی اور قطعی بات۔ یہ تحقق اور شک و شبہ سے پرے علم کے لیے بھی آتا ہے۔ اس کی ضد "الشك" یعنی شک اور "الريب" یعنی شبہ ہے۔ اس کے اصل معنی سکون اور ظہور یا پھر ثبوت، استقرار اور دوام کے ہیں۔
خاکساری و فروتنی اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر، بے وقعت اور کم زور ظاہر کرنا۔ تواضع کی ضد تکبر اور اظہارِ برتری ہے۔ دراصل ’تواضع‘ کا لفظ 'وضْع' سے ماخوذ ہے، جس کے معنی پستی اور انحطاط کے ہیں۔ اس کے دیگر معانی میں خشوع، سہولت اور نرمی وغیرہ داخل ہیں۔
ہروہ شے جو اللہ کو پسند ہو اور جس سے وہ راضی ہوتا ہواور وہ اللہ کے قرب کا باعث ہوچاہے اس کا تعلق نیتوں سے ہو یا پھر اعمال و اقوال سے ۔
خالص کرنا، میل کچیل اور گندگى سے صاف کرنا، صاف ستھرا کرنا، تراش خراش کرنا اور چن لینا۔ بعد میں اس کا اطلاق نیکی کے کاموں میں توحید پر کاربند رہنے اور ریاکارى سے پرہیز کرنے پر ہونے لگا۔
موبقات، موبقۃ کی جمع ہے۔ اس سے مراد ایسے گناہ ہیں، جو انسان کو ہلاکت اور خسارے میں ڈال دیں۔ موبقات یعنی ہلاک کرنے والی چیزیں۔
حیاء: شرم۔ ’حیاء‘ کی ضد ’الوقاحة‘ (وقاحت و بے حیائی) اور ’الجرأة‘ (ڈھٹائی) ہیں۔ ’حیاء‘ کا لفظ دراصل ’حياة‘ سے ماخوذ ہے، جو کہ ’موت‘ کی ضد ہے۔
دوسروں کے ساتھ نیکی کرکے، خندہ روئی کے ساتھ پیش آنا اور تکلیف پہنچانے سے باز رہ کر اچھا برتاؤ کرنا۔
کرامت : عزت و شرف۔ یہ "لكَرَم" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی سخاوت اور خیر کی کثرت کے ہیں۔ اس کی ضد بخل ہے۔ یہ لفظ شرافت و نجابت اور فضل کے معنی میں بھی آتا ہے۔
غصے کی شدت میں نفس کو قابو میں رکھنا اور اسے انتقام لینے سے باز رکھنا۔
جس پر کسی شے کا وجود موقوف (منحصر) ہوتا ہے، اور وہ (رکن) اس شے میں داخل ہوتا ہے، جیسے وہ امور جن پر صحتِ اعتقاد موقوف ہوتی ہے۔
تقیہ : ہوش و حواس سے کام لینا، بچنا اور برائی سے بچانا۔ 'الوِقايَةُ' کے معنی تکلیف سے محفوظ رکھنے اور بچانے کے ہیں۔
القنوط: کسی شے سے مایوس ہونا۔ ’قُنُوط‘ کی ضد ’رجاء‘ اور ’طمع‘ ہیں۔ قنوط کے اصل معنی روکنے کے ہیں اور اسی سے مایوسی کو قنوط کہا جاتا ہے؛ اس لیے کہ مایوس شخص نے اپنے آپ کو اللہ تعالی کی رحمت سے روک لیتا ہے۔
وسیلہ وہ چیز ہے، جس کے ذریعے کسی دوسرے تک پہنچا جائے۔ لفظ وسیلہ کسی چیز تک پہنچنے کے سبب اور راستے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہ دراصل "التوصل" سے لیا گیا ہے، جس کے معنی رغبت اور طلب کے ہیں۔
خوف اور کمزوری جس کی وجہ سے انسان ڈرنے لگتا ہے اور اقدام کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
بطورِ علاج جلد کو ایک گرم آلے سے جلانا۔