کسی انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت۔
ایسے باحوصلہ، صبر و شکیب کے حامل، فضل والے، پختہ فہم و فراست کے مالک، ثابت قدم اور راہ استقاقت سے نہ ڈگنے والے پیغبران، جن کی طرف اللہ نے وحی فرمائی اور جنھیں اپنے دین کی تبلیغ کا حکم دیا۔ یہ قابل قدر ہستیاں ہیں: نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم الصلاۃ والسلام۔
یہ ایک اسم ہے، جو یا تو "النَّبَأ" سے ماخوذ ہے، جو خبر کے معنی میں ہے یا "النَّبْوَة" اور "النُّبُوءِ" سے ماخود ہے، جو اونچا اور بلند ہونے کے معنی میں ہے۔
معجزہ : خلافِ عادت بات۔ یہ ’عَجْز‘ سے مشتق ہے، جس كے معنى کمزوری کے ہیں۔ معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کا سامنا کرنے سے مخالف بے بس رہے، جب اسے چیلنج کیا جائے۔ اس میں ’ھاء‘ مبالغہ کے لیے ہے۔
وہ لوگ جو دو رسولوں کے درمیان کے وقفے کے ہوں، بایں طور کہ پہلے رسول کو ان کی طرف نہ بھیجا گیا ہو اور دوسرے رسول کا انھوں نے زمانہ ہی نہ پایا ہو۔
رسول یعنی بھیجا گیا شخص۔ وہ شخص جو کوئی پیغام لے کر اسے پہنچانے کے ارادے سے آئے۔ کہا جاتا ہے : "أرسلت رسولا" یعنی میں نے ایک شخص کو ایک پیغام کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے پہنچا دے۔ یہ موافقت کرنے والے اور کسی کی طرف بھیجے گئے شخص کے معنی میں بھی آتے ہیں۔
راہ راست پر چلنا، واضح ہونا اور نرمی کے ساتھ ایسی چیز کی جانب رہ نمائی کرنا جو مطلوب تک پہنچا دے۔ اس کی ضد "الضَّلالُ" یعنی گم راہی ہے۔
اتباع: کسی دوسرے کے پیچھے چلنا۔ یہ اقتدا کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس کے اصل معنی پیدل چلنے والے کے نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے چلنے اور اس کے پیچھے چلنے کے ہیں۔ پھر بعد میں کسی کے کیے ہوئے کام کو کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
الإسْراءُ: در اصل ”السرى“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: رات میں چلنا یا پھر رات کے عمومی حصے میں چلنا، بعض حصے میں نہیں۔ کہا جاتا ہے: "أَسرَى وسَرَى" یعنی وہ رات میں چلا۔
الولاية : قربت اور محبت۔ ولی قریب اور محب۔ اس ضد "البغض" یعنی نفرت اور "البعد" یعنی دوری ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کوئی ایسی بات ڈالنا جو اس کے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کى وجہ بنے۔
قطعی حجت جو علم کا فائدہ دے اور وہ دلیل جس سے حق واضح ہوجائے۔
وہ خلافِ عادت امر ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی نبی کے ہاتھ پر اس کی بعثت سے پہلے ظاہر کرتا ہے۔
وہ دلائل اور براہین جن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد و تائید فرماتا ہے جو اُن کی صداقت کی نشانی ہوتے ہیں۔
ہر وہ رائے یا معنیٰ جو دل میں آئے۔
وہ لوگ جنہیں علم وعمل میں انبیاء کی نیابت کا شرف حاصل ہوتا ہے ۔
عادت اور زیادہ تر لوگوں کے ہاں مانوس طریقے سے نکلنا۔