اللہ تعالی کا مقرب فرشتوں کے سامنے نبیﷺ کی تعریف کرنا۔
ایسے باحوصلہ، صبر و شکیب کے حامل، فضل والے، پختہ فہم و فراست کے مالک، ثابت قدم اور راہ استقاقت سے نہ ڈگنے والے پیغبران، جن کی طرف اللہ نے وحی فرمائی اور جنھیں اپنے دین کی تبلیغ کا حکم دیا۔ یہ قابل قدر ہستیاں ہیں: نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم الصلاۃ والسلام۔
اہلِ عرب اور دیگر لوگوں کی قرآنِ کریم کا مقابلہ کرنے سے بے بسی ظاہر کرکے دعوائے رسالت میں نبی ﷺ کی سچائی کو ظاہر کرنا۔
عیسیٰ کا اپنی روح و بدن کے ساتھ اللہ کے حکم سے دوسرے آسمان پر چڑھ جانا۔ یہ اللہ کی طرف سے عیسیٰ پر رحمت اور ان کی عزت افزائی تھی ۔
عُروجْ: چڑھنا اوربلند ہونا۔ ’معراج‘ چڑھنے کا آلہ جیسے سیڑھی وغیرہ جس کے ذریعے انسان نیچے سے اوپر چڑھتا ہے۔
اوپر چڑھنے کا آلہ۔ جیسے سیڑھی، جس سے نیچے سے اوپر چڑھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اصلا یہ کلمہ اونچا ہونے اور چڑھنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے : "عرج إلى السطح وإلى السماء، يعرج، عروجا ومعرجا" یعنی وہ چھت پر چڑھا۔
وہ لوگ جو دو رسولوں کے درمیان کے وقفے کے ہوں، بایں طور کہ پہلے رسول کو ان کی طرف نہ بھیجا گیا ہو اور دوسرے رسول کا انھوں نے زمانہ ہی نہ پایا ہو۔
رسول یعنی بھیجا گیا شخص۔ وہ شخص جو کوئی پیغام لے کر اسے پہنچانے کے ارادے سے آئے۔ کہا جاتا ہے : "أرسلت رسولا" یعنی میں نے ایک شخص کو ایک پیغام کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے پہنچا دے۔ یہ موافقت کرنے والے اور کسی کی طرف بھیجے گئے شخص کے معنی میں بھی آتے ہیں۔
الإسْراءُ: در اصل ”السرى“ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں: رات میں چلنا یا پھر رات کے عمومی حصے میں چلنا، بعض حصے میں نہیں۔ کہا جاتا ہے: "أَسرَى وسَرَى" یعنی وہ رات میں چلا۔
ہر وہ شے جو امورِ عادیہ میں سے نہ ہو بایں طور کہ بشری طاقت سے بالاتر ہو اور انسانوں کے دائرہ قدرت میں نہ آتی ہو۔
روزِ قیامت ہمارے نبی محمدﷺ کے ساتھ مخصوص تمام قسم کی شفاعتیں
بندے کا اللہ کی اجازت کے ساتھ ان لوگوں کی شفاعت کرنا جنھوں نے اس شفاعت کی شرائط کو پورا کردیا ہو اور شفاعت کو روکنے والی اشیاء سے پرہیز کیا ہو۔ (1)
وہ خلافِ عادت امر ہے جسے اللہ تعالیٰ کسی نبی کے ہاتھ پر اس کی بعثت سے پہلے ظاہر کرتا ہے۔
وہ دلائل اور براہین جن کے ذریعہ اللہ اپنے رسولوں کی مدد و تائید فرماتا ہے جو اُن کی صداقت کی نشانی ہوتے ہیں۔
ہر وہ شے جو از راہِ شریعت ثابت ہے جیسے جنت و جہنم اور روزِ قیامت کے احوال۔
کسی دوسرے کی اقتداء اور اتباع کرنا بایں طور کہ اسی کی طرح کا عمل کرے اور جیسے اور جس انداز میں وہ کسی کام کو چھوڑے ویسے ہی یہ بھی چھوڑ دے۔
عادت اور زیادہ تر لوگوں کے ہاں مانوس طریقے سے نکلنا۔